جمعۃ المبارک، 24 جمادی الثانی 1443ھ،28 جنوری 2022ء

وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد دوبارہ کرونا کا شکار
صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد ویسے تو کافی مضبوط اعصاب کی مالک ہیں۔ شخصیت بھی دبنگ اور طاقتور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک تحریک انصاف میں ہیں۔ معلوم نہیں انہیں تحریک انصاف کی ضرورت ہے یا تحریک والوں کو ان کی، ورنہ ان کے دور کے سارے پرانے تحریکی اب منظرعام سے ہٹ گئے یا ہٹا دئیے گئے ہیں، اب وہاں نئے چہروں کا راج ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے شروع میں کرونا کو سنجیدہ لیا ہی نہیں، عوام کو بھی ایسا ہی پیغام دیا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ ویکسینیشن اپنی مرضی سے کرائیں۔ اب کرنا یہ ہوا کہ خود ہی وہ دوسری مرتبہ کرونا کا شکار ہوئی ہیں۔ اس سے قبل بھی وہ پہلے کرونا کا کرب بھگت چکی ہیں۔ اس لیے اب وہ لوگوں کو کرونا کے خلاف احتیاط اور ویکسینیشن کا درس ضرور دیں گی کیونکہ دوسری مرتبہ وہ کرنا کا شکار ہوئیں ہیں جس کے بعد وہ ازخود گھر میں قرنطینہ میں چلی گئی ہیں۔ تاہم انہوں نے پیغام دیا ہے کہ اللہ کے کرم سے وہ بہتر ہیں۔ خدا غارت کرے اس کرونا کو۔ اس نے کیسے چن کر وزیر صحت پر ہی حملہ وہ بھی دوسرا حملہ کر کے عوام کو خبردار کر دیا ہے کہ جب اتنے صاف احتیاطی ماحول میں رہنے والے اس کے وار سے نہیں بچتے تو ’’ہما شما چیست‘‘ اس لیے عوام اب کرونا یا امیکرون کو ایزی نہ لیں اور ویکسینیشن کے علاوہ بھی تمام حفاظتی تدابیر اختیار کریں یہ ان کے اپنے لیے ضروری ہے۔
٭٭٭٭
کراچی: پسند کی شادی پر لڑکی کے والد نے لڑکے کی انگلی چبا کر الگ کر دی
امید ہے اب پسند کی شادی کرنے والے کے ہوش ٹھکانے آ گئے ہوں گے۔ ویسے اس وحشیانہ حرکت کے بعد مجنوں کو پتہ چل گیا ہو گا کہ اس کے سسرالی آدم خور قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ظالم ہوتے تو گولی مار سکتے تھے۔ لاٹھی یا ڈنڈوں سے قیمہ بنا سکتے تھے۔ مگر یہ تو لڑکی کے والد کی مہربانی ہے اس نے صرف انگلی چبا کر ہاتھ سے الگ کر دی۔ اگر وہ یہی حرکت ناک اور کان کے ساتھ کرتے تو کیا ہوتا۔ انگلی کٹا کر شہید ہونے والے بے شمار ملتے ہیں مگر ناک اور کان کے بغیر رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کوئی بھی کن کٹا یا نک کٹا کہلانا پسند نہیں کرتا۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اولاد شادی کے معاملے پر خود سر ہو جاتی ہے۔ بے شک پسند کی شادی گناہ نہیں مگر گھر والوں خاص طور پر والدین کی عزت اور احترام ان کی قربانیوں کا بھی خیال رکھنا اولاد کا حق ہے۔ بیٹیوں کو تو خاص طور پراس بات کا خیال رکھنا چاہیے ورنہ بعد میں قتل و غارت اور دشمنی کا سلسلہ خاندانوں کو تباہ کردیتا ہے۔ اسی طرح لڑکوں کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہئیں کہ محلے اور اردگرد کے پڑوس میں سب کو ماں بہن بہو بیٹی کی نظر سے دیکھیں۔ ہر جگہ معافی نہیں ملتی۔ کہیں سے گردن اتارنے کہیں سے ہڈیاں توڑنے اور کہیں سے ناک کان انگلی چبانے کے واقعات بھی عبرت کے لیے یاد رکھنا چاہئیں۔ بہرحال اب لڑکی کا باپ اور چچا دونوں حوالات میں ہیں۔ دعا ہے ان سارے معاملات کا اثر لڑکی کی گھریلو زندگی پر نہ پڑے اور وہ سکھی رہے۔
٭٭٭٭
تین ماہ تک قیمتیں کم نہیں ہوں گی۔ شوکت ترین ، آٹے کی قیمتوں میں اضافہ روکا جائے۔ وفاقی حکومت
جب سے موجودہ حکومت آئی ہے۔ معاشی حالات کسی نشئی کی طرح ڈگمگاتے پھر رہے ہیں۔ سب سے بری حالت مہنگائی کی بڑھتی ہوئی لہر نے کررکھی ہے جو درحقیقت سونامی بن کر عوام کی قوت خرید کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جا رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی کسی کے قابو میں نہیں آ رہی۔ تین وزرائے خزانہ اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں مگر یہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ یہی حال رہا تو چوتھے کی باری بھی جلد آ سکتی ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ اپنی عمر کے اس حصے میں ہیں جب خودبخود دل میں ہمدردی اور خوف خدا پیدا ہوتا ہے۔ مگر لگتا ہے شوکت ترین ابھی تک عوام کوڈرانے اور رلانے کے سوا کوئی کام کرنانہیں جانتے۔ ویسے بھی وہ کون سے عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں جو انہیں عوام کا خیال آئے۔ درآمد شدہ وزیر خزانہ اب بھی فرماتے ہیں کہ مزید 3 ماہ تک قیمتیں کم نہیں ہوں گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا۔ شاید وہ خود بھی نہیں جانتے۔ غالباً وہ جانتے ہیں کہ عوام نئی قیمتوں کے عادی ہو جائیں گے۔ اوپر سے تمام وزرا اور ترجمان یک زبان ہو کر فرماتے پھرتے ہیں اس بار چاول اور گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے تو جناب پھر اس بمپر فصل کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں آ رہے۔ چاول اور آٹے کی قیمت کم کیوں نہیں ہو رہی۔ ملک بھر میں گندم سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ آٹے کے بنا کھانا بن ہی نہیں سکتا۔ روٹی ہر ایک کے دستر خوان کی مجبوری ہے جو اب غریبوں کی دسترس سے دور ہو رہی ہے۔ آٹے کا بحران سب سے زیادہ لوگوں کو متاثر کررہا ہے۔ وفاقی حکومت کی اس طرف توجہ ہوئی تو اس نے خود کارروائی کرنے کی بجائے صوبوں کو حکم دیا ہے کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافہ روکیں۔ بھلا یہ صوبوں سے اگر ہو سکتا تو وہ قیمتیں بڑھنے ہی کیوں دیتے۔
٭٭٭٭
27 فروری کو اسلام آباد میں جمع کچرا صاف کریں گے: بلاول
یہی خیال مولانا فضل الرحمن کا بھی ہے مگر وہ کسی اور انداز میں اس کا اظہار کر رہے ہیں مولانا فرماتے ہیں 2022ء حکمرانوں کا آخری سال ہو گا۔ اب ان کی باتیں سن کر یقین کریں ہنسی بھی نہیں آتی وہی
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
والی حالت سامنے ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہر سال تاریخ پہ تاریخ دینے حکومت کے جانے کی پیشین گوئی کرنے کے باوجود موجودہ حکومت 4 سال خیر و خوبی کے ساتھ پورے کر رہے۔ اگلا سال تو ہے ہی الیکشن کا۔ اس سال اپوزیشن کوئی تحریک بھی نہیں چلا سکتی کہ حکومت کا دھڑن تختہ کر دیں گے۔ بلاول جی بھی اس وقت اپنی ترنگ میں ہیں۔ سوچ رہے ہیں کہ 27 فروری کو وہ آندھی کی طرح اٹھیں گے طوفان کی طرح چھا جائیں گے اور اس آندھی و طوفان کی زد میں آ کر اسلام آباد کے ایوانوں سے پی ٹی آئی کی حکومت سوکھے پتوں کی طرح بکھر جائے گی تو ایسا کچھ نہیں ہونا یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ پی ایم ڈی والے بھی 23 مارچ سے ایسے ہی خواب آنکھوںمیں سجا کر نکلنے کی بات کررہے ہیں مگر لگتا ہے۔ وہ 27 فروری کو پیپلز پارٹی کے کچرا صاف کرنے کے اعلان کا حشر اسلام آباد میں دیکھ کر محتاط ہو جائیں گے کیونکہ بھوکے ننگے عوام اب کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ویسے بھی بھوکے ننگے عوام انقلاب تو لا سکتے ہیں دھرنا دے کر بیٹھ نہیں سکتے کیونکہ ان کے گھروں میں موجود کئی بھوکے ننگے روٹی کے منتظر ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭