کمر توڑمہنگائی کا واحد حل

حکمران غلط نہیں کہتے کہ مارچ 2020سے جنوری 2022تک کی معاشی کارکردگی کو سامنے رکھ کر بنائی جانے والی ’’گلوبل نارملسی انڈکس‘‘میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے لیکن عوام اس بات پر یقین کرنے کو اس لئے تیار نہیں کہ مہنگائی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔
آپ کو یاد ہو کہ نہ ہو لیکن پی ٹی آئی کی 25ویں یعنی گزشتہ سالگرہ پر خطاب کرتے ہوئے خان صاحب نے اپنی وزارتِ عظمی کی اڑھائی سالہ کارکردگی پر فخر کا اظہار کیاتھا اور اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی تھی کہ جب انہیں اقتدار ملا تو سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ تھا لیکن یہ خسارہ اڑھائی سال میں ہی ختم کر دیا گیا ہے بلکہ اب کرنٹ اکائونٹ ’’سرپلس‘‘ ہو چکا ہے۔ ایک طرف یہ عالم تھا اور دوسری جانب کراچی) NA-249 ( کے ضمنی انتخابات میں(جوسالگرہ کے چار ہی دن بعدہوئے) پاکستان تحریک ِ انصاف اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹ پر اپنے ہی دورِ حکومت میں پانچویں پوزیشن پر آئی تھی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ تو ایک طرف، پی ٹی آئی نے تحریکِ لبیک پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی سے بھی کم ووٹ حاصل کئے تھے۔
یوں لگتا ہے کہ اس حقیقت کا ادراک جناب وزیرِ اعظم کونہیں کہ یہ جو ہمارے یہاںکرنٹ اکائونٹ کے خسارے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ تو ہوتا ہے لیکن کرنٹ اکائونٹ کے ’’سرپلس‘‘ہونے سے مہنگائی میں کمی واقع نہیں ہوتی تو اس کی وجہ دراصل ’’بیڈ گورننس‘‘ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے یہاں تو سرِعام یہ تک دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی بازار میں الگ الگ دکانوں پر ایک ہی چیز کی قیمت الگ الگ ہوتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ناپ تول میں بھی کمی کی جاتی ہے، ابھی کچھ ہی روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں لاہور کے ایک بڑے’’ شاپنگ مال‘‘ میں ایک صاحب وزن کرنے کی مشین ساتھ لے کر گئے اورکاونٹر پر ہی کھڑے ہو کرسب کے سامنے وہ اشیا تولنے لگے جو وہاں سے خریدیں، سب کی سب میں تھوڑا بہت نہیں بلکہ کافی زیادہ فرق تھا مثلا ایک لفافے پر ایک کلو کا ٹیگ لگا ہوا تھا لیکن اس کا وزن 0.6کلو تھا۔
عمران خان سابق کرکٹر ہیں تو انہیں یہ بات شاید اس طرح زیادہ اچھے طریقے سے سمجھ آ سکے کہ وہ مہنگائی کے خلاف’’ ٹیسٹ میچ‘‘کھیل رہے ہیں جبکہ کھیلنا’’ ٹونٹی ٹونٹی ‘‘چاہیے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح گرتی ہوئی معیشت کے تحت اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا تا ہے ویسے ہی بہتری کی طرف بڑھتے ہوئے معاشی حالات کے پیشِ نظر اِن قیمتوں میں کمی بھی کی جائے اور ا سکے ساتھ ساتھ نئی قیمتوں پرسختی سے عملدرآمد بھی کروایا جائے لیکن یہ کام کیا وہ سرکاری افسر کر سکتے ہیں جن کے طفیل ہمارے معاشرے میں ’’افسری‘‘کرنے کا مطلب ہی ’’کام نہ کرنا ‘‘بن گیا ہے ؟
’’پرائس ریگولیشن‘‘ اور درست اوزان و پیمائش کو یقینی بنانے کا واحدفوری حل یہ ہے کہ صارفین کی خدمات سے استفادہ کیا جائے جو اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ حکومت ایک ’’کریش پروگرام‘‘ کے تحت ہر شہر اور ہربازار میں ’’کنزیومر ایسوسی ایشنز‘‘بنوائے اور انہیں فعال بھی کروائے۔ اور یہ سارا کام ’’سرکاری‘‘ طرز پر نہیں بلکہ پرائیویٹ انداز سے کیا جائے جس کے لئے اچھی ساکھ کی حامل غیر سرکاری تنظیموں کی معاونت بھی حاصل کی جا سکتی ہیںکہ وہ ’’کنزیومر ایسوسی ایشنز‘‘کو آرگنائز کرکے تربیتی پروگراموں کے ذریعے ’’جلد از جلد‘‘اپنے پیروں پر کھڑ ا کریں۔ صارفین کی تنظیموں کی رسائی براہِ راست وزیرِا عظم آفس تک ہونی چاہیے تاکہ ضلعی انتظامیہ دکانداروں کے خلاف ’’پرائس ریگولیشن‘‘ اور اوزان و پیمائش کے حوالے سے کی گئی شکایات پر فوری ایکش لے بصورتِ دیگرذمہ دار افسریا اہلکار کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے روزگار نوجوانوں کو باقاعدہ تربیت دے کرـ’’پرائس کنڑول اینڈ وے اِنگ ورکرز ‘‘(پی سی ڈبلیو)بھی بنایا جا سکتا ہے کہ ہمارے یہاں نوجوانوں کی کمی ہے نہ بے روزگاری کی۔
صارفین کی کسی ایسوسی ایشن یا ’’پی سی ڈبلیو‘‘ ورکرز کی جو شکایات درست ثابت ہوں اُن پر ذمہ داران کو بھاری جرمانے کئے جائیں جن میں شکایت کرنے والے کا کمیشن بھی شامل ہو، تو آپ خود ہی فرمائیے کہ کمرتوڑ مہنگائی کا مسئلہ کیوں حل نہیں ہو سکتا؟
لیکن یہ ساری باتیں تو حکومت کے لئے لکھی ہیں، تو اگر حکومت کچھ نہ کرے تو کیا ہم مہنگائی کی چکی میں اسی طرح پستے رہیں گے یا خودبھی کچھ کرنے کی کوشش کریں گے،یہ ’’کنزیومر ایسوسی ایشنز‘‘اپنے طور پر کیوںنہیں بنائی جا سکتیں؟ اور زیرِ بحث مقصد کے حصول کیلئے ’’کنزیومربائی کاٹ‘‘کا آزمودہ طریقہ کیوں استعمال نہیں کیا جا سکتا؟شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ ایک مرتبہ ایک منہ زور ملٹی نیشنل کمپنی کے ایک پروڈکٹ(جو شیر خوار بچوںکا دودھ تھا) سے پہلے امریکہ اور پھر یورپ کے صارفین نے’’بائی کاٹ‘‘کر کے اس کمپنی کو اپنے آگے ناک رگڑنے پر مجبو رکر دیا۔ مری کی حالیہ مثال بھی ہمارے سامنے ہے ،آپ خود ہی فرمائیے کہ سیاحوں نے مری سے بائیکاٹ کر کے وہاں کے دکانداروں کو کیا ناکوں چنے نہیں چبوا دیے؟اگرلوگ کچھ کرنے والے بنیں تو کیا نہیں کیا جا سکتا؟