آپ کا وزیر اعظم آ پ کے ساتھ مگر۔۔۔

ساتھ ساتھ تقریر چل رہی ہے اور ساتھ ہی قلم سے کاغذ سیاہ ہو رہے ہیں جب تک کالم چھپے گا تب تک برقی و کاغذی ذرائع سے بہت کچھ نکل چکا ہوگا۔ انتہائی پُر کشش خواب ۔ دل لُبھانے والا انداز ۔ پہلا حکمران جو اپنے عوام اور ملک کے بنیادی مسائل ۔ بیماریوں ۔ ناسور سے انتہائی حد تک با خبر۔ سامعین کو قائل کرنے کی طاقت سے لیس ’’میں بھی قائل ہوگئی ‘‘ مگر جب حقائق دیکھے تو ؟ عوامی رابطہ کے آغاز میں اپنے مشہور بیان سے منحرف (میں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بناؤں گا) مہنگائی کے سوال پر وہی روایتی باتیں۔ بیرونی ممالک کا تقابل ۔فرسودہ مثالیں ۔ یہاں صرف قیمتوں کا موزانہ کیا جاتا ہے وہاں گھر کی دہلیز پر میسر سہولتوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا ۔ دن کے آغاز میں مصدقہ معلومات ملنے کے باوجود عمل ؟ انڈسٹری اگر ترقی کر رہی ہے تو پھر ہفتہ بھر سے زائد بے روز گاری کیخلاف سراپا احتجاج ’’مزدور‘‘ کِس ڈرامہ کی ریہرسل کر رہے ہیں ؟ تنخواہ دار طبقہ کی تکالیف پر اتنا فکر۔ تو آپ بھی سمجھ لیں کہ حکومت صرف اِسی طبقہ سے ٹیکس وصول کر کے اپنے اُمور سر انجام دیتی ہے اور کچھ نہیں تو کم از کم ٹیکس شرح ہی کم کر دیں۔یہ ریلیف تو مکمل طور پر حکومت کے اختیار میں ہے۔
’’6ہزار ارب روپے‘‘ ریکارڈ ٹیکس کلیکشن ۔ ٹیکس دینے والے صرف ’’20 لاکھ افراد‘‘۔ ٹیکس کلیکشن ’’8ہزار ارب‘‘ تک لیجانے کا عزم ۔ اعلان کردہ ہدف اگر اُنہی ’’20لاکھ‘‘ سے وصول کرنا ہے تو پھر کیا قبرستانوں میں ’’ایف بی آر‘ کے دفاتر بتائیں گے ۔کتنا اچھا ہوتا ساتھ میں یہ بھی ضرور بتا دیتے ۔ کِسی ایک حکمران کا نام سُنا دیں جس نے دعویٰ کیا ہو کہ اُس کو خزانہ بھرا ہوا ملا تھا۔ خسارے میں حکمران کبھی نہیں رہے صرف عوام رہتے ہیں۔ ’’اشرافیہ ۔ ڈاکوؤں‘‘ سے ٹیکس لیکر عوام پر خرچ کرنے کا بلند آہنگ نعرہ ’’گدی‘‘ سنبھالتے ہی ’’اُلٹی گنگا بہہ نکلی ‘‘اِس حقیقت کے جاننے کے باوجود کہ جو بھی اقتدار میں آیا ۔ مستقل نہیں رہا کبھی مختصر کبھی بے حد طویل ۔پر رخصتی لازمی ٹھہری ۔ حکومت میں سب بہترین ’’اپوزیشن‘‘ میں سب بُرا ۔ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کرنے کے باوجود معاشی حالت اتنی پتلی کیوں ؟ کہیں خرچ بھی ہوئے ؟؟ اگر ابھی تک نہیں تو پھر کِس شعبہ میں لگانے کا ارادہ ہے؟؟ قوم کو وعظ ۔ درس نہیں مطلوب ۔حل چاہیے ہر اُس تکلیف کا جو دن بدن عوام کوکاٹ رہی ہے کھا رہی ہے ۔ قوم اپنے مسائل سے بخوبی واقف ہے مزید براںقوم ’’قرآن مجید ۔ سنت رسولﷺ‘‘ کے قانون پر عمل درآمد بابت مبارک احکامات اور فرامین کے متعلق بھی قطعی طور پر لا علم نہیں ۔ وہ سب باتیں ۔ دلائل جو تقریر میں سُنے سب تاریخ کی پُرانی دہرائی تھی ۔ قانون شکن عناصر ۔ ٹیکس چور لوگ۔ رشوت خور مافیا کو گرفت میں لانا کِس کی ذِمہ داری ہے ؟؟جب آپ پُورا پروٹوکول انجوائے کر رہے ہوں۔ تنخواہ لے رہے ہیں اپنے حاصل اختیارات کے تحت ریاستی امور نبھا رہے ہیں تو پھر ناکامی کدھر ہے ؟ وہ ناکامی جو صرف عوامی مسائل کے حل کے ضمن میں درپیش رہتی ہے وہ حکمران جو قانون کی بالادستی ۔ انصاف پر یکسو ہے تو جیلوں میں جو غریب ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اُن کو رہا کیوں نہیں کر دیتے ؟’’ سٹیزن پورٹل‘‘ پر درج کروائی جانے والی شکایات کے متعلق پاکستان میں مقیم لوگوں کی شُنوائی نہ ہونے کی اطلاعات زیادہ ہیں اُلٹا ’’بیوروکریسی‘‘ پیچھے پڑ جاتی ہے کہ ہماری شکایت کیوں لگائی ۔ اُنہی کے پاس جاؤ وہ تمھارے مسائل حل کریں گے ۔ علاوہ ازیں’’اوورسیز پاکستانیوں ‘‘ کا بڑا بھرپور جامع موقف اپنے ایک پچھلے کالم میں دے چکی ہوں۔
اگر ملک ترقی کر رہا ہے معیشت مستحکم ہو رہی ہے تو پھر مہنگائی کیسے بڑھ رہی ہے ؟ لوگ کیوں چیخ و پکار کر رہے ہیں ۔وزیر اعظم صاحب اپنی تقریر۔بولتے الفاظ میں عوامی دلوں کے ساتھ اور نظامِ عدل۔ مہنگائی پر بہت دُکھی نظر آئے ۔ آپ نے پارٹی کا نام بہت خوب رکھا مگر انصاف نہیں کرسکے سب چور۔ ڈاکو۔ قانون شکن مافیاز دندنارہے ہیں ۔ ’’سیسیلین مافیا ‘‘ کی کمر توڑنا ریاست کی ذِمہ داری ہے ہم تو شعور کے آغاز سے لڑ رہے ہیں بول کر لکھ کر مگر اب تو اپنے لکھے الفاظ پر بھی شرمندگی ہونے لگی ہے ۔شعور کے آغاز سے یقین تھا کہ لکھنا بہت بڑا جہاد ہے ۔سچ بولنا ۔ سچ سننا ۔کڑی آزمائش سے کم نہیں ۔قارئین یقین مانئے سچ کو ماننا سب سے مشکل جہاد ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کے معیار کو نہیں پا سکتا ۔
ضروری نہیں جو چیز پاکستان میں بنے گی وہ سستی ہوگی(موبائل پاکستان میں بنانے کی بات)۔حکومت نے ’’صنعت کاروں ‘‘ کو گاڑیاں بنانے کے درجنوں لائسنس دئیے ۔ ہزاروں گاڑیاں بننے کے باوجود قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی اُلٹا ’’اون‘‘ کے نام پر عوام کو اضافی لُوٹا جا رہا ہے ۔جب تک آپ بجلی ۔ گیس ۔ پٹرول کی قیمتوں میں معتدبہ کمی کر کے اُنھیں منجمد نہیں کر دیتے تب تک مہنگائی نہیں رُکنے والی پھر تازہ بیان۔ ہر ماہ یہی بیان داغ دیا جاتا ہے کہ اگلے 2-3ماہ مہنگائی رہے گی ۔وہ کونسی جادو کی چھڑی ہے جو حکومت نے سنبھال رکھی ہے کہ جب چلائے گی تو یکدم مہنگائی ختم ہو جائے گی اب حکومت خفیہ چھڑی کو لہرا ہی دے تو بہتر ہے عوام بہت تکلیف میں ہیں۔ ایک طرف اضافہ اُسی لمحہ مہنگائی کنٹرول اجلاس۔ ایک وقت میں ظلم اور مذاق نہیں چل سکتے ۔ عوام کی تو دلی خواہش ہے کہ کِسی بھی لُوٹنے والے کرپٹ سیاستدانوں ۔ منافع خور مافیا کارٹلز کو کہیں بھی چُھپنے کی جگہ نہ ملے ۔ یہی وہ واحد نکتہ اور مقصد تھا جس نے آپ کے دھرنا کو قبولیت بخش دی۔ خواہش کا اظہار کرنے سے بات نہیں بنتی ۔ اب آپ کو عملی طور پر کمزور طبقے کے حق میں اقدامات اُٹھا لینا چاہئیں ۔ آپ کا مافیا سے مقابلہ ہے تو عوام تو اُن کے جُوتے کے نیچے ہیں ۔اگر پارلیمنٹ میں وہ آپ کو بولنے نہیں دیتے تو پھر سینکڑوں ’’بلز‘‘ کیسے یکمشت پاس ہو جاتے ہیں ؟؟