
ہندوستان کی انسداد دہشت گردی کی تحقیقاتی ایجنسی نے 22 نومبر 21 کو خرم پرویز کو ان کے گھر اور دفتر پر چھاپے کے دوران ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر سے ’دہشت گردی کی فنڈنگ‘ کے معاملے میں گرفتار کیا۔ این آئی اے نے پرویز کا موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کچھ کتابوں کے ساتھ ان کی اہلیہ کا موبائل فون بھی ضبط کر لیا۔ خرم نے سری نگر میں کولیشن آف سول سوسائٹی کے کوآرڈینیٹر کے طور پر ہندوستانی سیکورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کی دستاویز کرنے پر بڑے پیمانے پر کام کیا ہے۔ ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر دو سو سے زیادہ این جی اوز کا ایک عالمی نیٹ ورک جو انسانی حقوق کے لیے اور تشدد کے خلاف لڑ رہی ہے اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ انسانی حقوق میری لاولر نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی غیر قانونی گرفتاری کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے تشدد اور دہشت گردی کے سخت ایکٹ کو بھی خوف میں اضافے کی وجہ قرار دیا۔
ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر جنیوا میں قائم ایک اہم ادارہ ہے جو انسانی حقوق کے لیے لڑنے والے دنیا بھر کے گروہوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر نے کہا کہ خرم کی گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ چونکہ سب جانتے ہیں کہ زیر حراست بھارتی کس بدترین انداز میں تشدد کرتے ہیں۔میری لاولر، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے محافظوں کی خصوصی نمائندہ، نے ٹویٹ کیا "میں پریشان کن رپورٹس سن رہی ہوں کہ خرم پرویز کو کشمیر میں گرفتار کیا گیا ہے اور بھارت میں حکام کی جانب سے دہشت گردی سے متعلق جرائم کے الزامات عائد کیے جانے کا خطرہ ہے۔ وہ دہشت گرد نہیں، انسانی حقوق کا محافظ ہے"
ڈیوڈ کائے، اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندے نے کہا کہ خرم کی دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتاری "کشمیر میں بڑی زیادتی تھی۔"خرم پرویز نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ 'بھارتی حکومت کشمیریوں کو احتجاج کے پرامن ذرائع سے محروم کر رہی ہے'۔ یہ واضح تھا کہ خرم پرویز کو بھارتی قابض افواج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کی کوششوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ بھارتی پولیس نے پندرہ نومبر دو ہزار اکیس کو ایک سرچ آپریشن کے دوران معصوم شہریوں کو "ہیومن شیلڈز" کے طور پر استعمال کیا جس میں ایک دندان ساز (مدثر گل، 40) اور قائم تاجر (الطاف احمد بھٹ، 48) سمیت چار بے گناہ افراد کو ہلاک کیا۔
واقعے کی بربریت کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور میڈیا نے دیکھا اس واقعے کو ہندوستانی قابض افواج کی طرف سے معصوم شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے والے جنگی جرم کے طور پر دیکھا گیا۔ہزاروں کشمیری تقریباً روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کشمیری آزادی کے جنگجو کئی دہائیوں سے بھارتی فوجیوں سے لڑ رہے ہیں جن کی تعداد اس وقت مقبوضہ وادی میں تقریباً دس لاکھ تعینات ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ خطے کی آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل درآمد کے لیے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے ہندوستانی قابض افواج کے ہاتھوں دسیوں ہزار افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، بے دردی سے مارے گئے ہیں۔ موجودہ فسطائی حکومت کے تحت ہندوستان انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی وجہ سے بے نقاب ہوا ہے۔ بھارت نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اختلاف رائے کی آوازوں کو خاموش کر دیا ہے۔ بھارت کے اس انسان دشمن رویے کے خلاف رائے عامہ بننے کے بعد جبری گمشدگیوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے لوگوں کو غائب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی آواز کو دبانے کے لیے اپنی فوج اور غیر قانونی قوانین پر زیادہ سے زیادہ انحصار کر رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی مقبوضہ وادی میں بھارتی غیر قانونی اقدامات پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آرمڈ فورسز (جموں و کشمیر) سپیشل پاورز ایکٹ سیکورٹی فورسز کو انسداد بغاوت کی کارروائیوں میں گرفتار کرنے، مارنے اور املاک کو تباہ کرنے کے وسیع اختیارات دیتا ہے، جس سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔بین الاقوامی برادری اور ماہرین کی رائے ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی ذاتی زندگی میں نہ ختم ہونے والی فوجی مداخلت ہے جو پچھلے دو سالوں میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ کشمیر میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں پر عسکریت پسندوں کے حملے بھارتی ریاست کے حق میں کام کرتے ہیں کیونکہ اس کے بعد یہ خطے پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے اور خود کو اقلیتوں کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ ہندوستانی حکومت نے سیاسی گروپوں کے تقریباً تمام سرکردہ سیاست دانوں کو حراست میں لے لیا ہے جنہوں نے خطے کی ریاستی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا، یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے ہندوستان کی لکیر کو توڑا ہے۔
بھارتی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مزید ڈھٹائی سے ہوتی جا رہی ہیں۔ انہیں نہ صرف قانونی استثنیٰ حاصل ہے بلکہ اخلاقی اور سیاسی استثنیٰ حاصل ہے، جو زیادہ خطرناک ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور قیادت نے سرزمین اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی طرف مکمل طور پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کو مستقبل میں ہولوکاسٹ سے بچنے کے لیے صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے۔برطانیہ کی قانونی فرم کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کو عالمی برادری کی جانب سے گزشتہ سات دہائیوں سے بھارتی مظالم کو لمحہ فکریہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کے وکلائ نے ان لوگوں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے عالمی دائرہ اختیار کے اصول کو تیزی سے استعمال کیا ہے جو اپنے آبائی ممالک میں یا دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مجرمانہ شکایات درج کرنے سے قاصر تھے۔جرمنی کی ایک عدالت نے حال ہی میں (10 جنوری 2022) شام کے ایک سابق خفیہ پولیس افسر کو ایک دہائی قبل دمشق کے قریب ایک جیل میں ہزاروں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کی نگرانی کرنے پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ شام کے خفیہ پولیس افسر کے جنگی جرائم کی نوعیت ہندوستانی قابض افواج کے جنگی جرائم سے بالکل مماثلت رکھتی ہے۔
مسٹر ہاکان کاموز نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ برطانوی پولیس سے ہندوستانی اہلکاروں کی گرفتاری کی درخواست کے بعد کشمیر پر توجہ مرکوز کرنے والی دیگر قانونی کارروائیاں کی جائیں گی۔ "ہمیں یقین ہے کہ یہ آخری نہیں ہوگا، شاید اور بھی بہت سی درخواستیں ہوں گی۔ (ختم شد)