فرقہ بندی سے اجتناب

سورہ آلِ عمران۔ آیت نمبر 103فر
ترجمہ’’اور مضبوطی سے پکڑ لو اللہ کی رسی کو سب کے سب اور نہ تم فرقہ فرقہ بنو‘‘
اقبال نے اپنے کلام میں ہمیں جابجا جمعیت کا درس دیا ہے کلام پاک میں یہ موضوع بار بار آیا ہے لہذا ایک مضمون میں ان سب کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی ایک مفہوم کو موقع و محل کی مناسبت اور شانِ نزول کی مطابقت سے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں سورۃ انعام آیت نمبر 159 میں فرمایا ہے
’’بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے‘‘۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ روم آیت نمبر 32 میں فرمایا ہے
’’اورنہ ان لوگوں میں ہونا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور خود فرقے فرقے ہوگئے سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پاس ہے‘‘۔
اسی طرح اقبال نے بھی سیاق و سباق کے حوالے سے جگہ جگہ اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے اور نہ صرف فرقہ بندی سے منع کیا ہے بلکہ اس کے ہولناک نتائج سے بھی خبردار کیا ہے۔
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشریہاں
اور اس کے ہولناک نتائج کے پیش نظر ہی اقبال نے فرقہ بندی کو ہنگامۂ محشر کہا ہے ہنگامۂ محشر میں جس قدر پریشان حالی تباہی و بربادی اور ہولناکی کے مناظر ہیں اور کس ہنگامے کے ایسے ہولناک نتائج ہونگے۔
اقبال کو قوم سے جو شکوے تھے ان میں سے ایک شکوہ یہ بھی تھا کہ ہم مسلمان توحید کے ماننے والے تو ہیں لیکن متحد نہیں ہیں۔ انہیں اس بات کا شدید دکھ تھا اور اس کا جگہ جگہ اظہار بھی کیا ہے۔
بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب
ان سب کو ایک جیسا ہونا چاہیے ہر ایک کا کردار اسلامی معاشرے سے مطابقت رکھتا ہو۔ لیکن یک رنگ ہونا تو کیا یہ تو ایک دوسرے کے آشنا بھی نہیں ہیں اتفاق کی جگہ نفاق نے لے لی ہے اور قرب کہیں ہے بھی تو اس میں بھی فراق کی ملاوٹ ہے یعنی ظاہری طور پر قرب ہے باطن میں فراق ہے۔
؎سرزمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا یاں تو اک قربِ فراق آمیز ہے
اور اقبال نے محسوس کیا یہاں تو چپے چپے پر منافقت ہے اور وہ بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ایسے میں میرا کلام کیا اثر کرے گا اور میرے کلام کا ان کو کیا فائدہ ہوگا۔
؎جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں
دوسرے مصرع میں جو لاتعلقی کا اظہار کیا اس سے مایوسی ٹپکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ایسے ماحول میں کوئی پیغام دینا بے فائدہ ہے نہ تو انسان خوشی سے کوئی پیغام دیتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ پیغام کس کو دوں یہ سب تو الگ الگ ہیں ہر ایک کا مزاج الگ ہے اور ایسے میں میرے پیغام کو بھی اپنے مزاج کے مطابق سمجھیں گے اور اس کی مختلف تشریحات کریں گے اقبال نے شدت سے محسوس کیا اور قوم کو خبردار کیا اور سوال کیا کہ کیا اس طرح سے تم آگے بڑھ سکتے ہو؟ اقبال کے کلام میں مایوسی کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی وہ رجائیت کے شاعر ہیں ان کا کلام رجائیت سے بھرپور ہے لیکن جب بات فرقہ بندی پر چلی ہے تو وہ بھی مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔
؎فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اور اس کا جواب یقینا نفی میں ہے جو شعر کے اندر موجود ہے۔
فرقہ بندی سے گریز پر اقبال نے اس لئے بھی زیادہ زور دیا ہے کہ ہماری پسماندگی میں ایک بہت بڑا ہاتھ اسی خامی کا ہے اور اقبال بخوبی سمجھتے ہیں کہ فرقہ بندی کی موجودگی میں قوم کا پنپنا بہت مشکل ہے کیونکہ پنپنے کے لیے ضروری ہے کہ سب اکٹھے مل کر زور لگائیں ایک بڑی مشہور کہانی ہے کہ کبوتروں پر جب شکاری نے جال پھیلا دیا اور سب کے سب پھنس گئے تو انہیں ایک ترکیب سوجھی اور سب نے مل کر زور لگایا تو جال کو لے اڑے۔ افسوس ہے کہ ہم ان معصوم کبوتروں سے بھی زیادہ ’’معصوم‘‘ ہیں اور ہمیں نہ یہ سمجھ آتی ہے کہ دشمنوں نے ہمیں جال میں پھنسایا ہوا ہے اور نہ یہ سمجھ آتی ہے کہ اس جال سے نکلنے کے لیے ہمیں سب کو مل کر زور لگانا ہوگا جو فرقہ بندی کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے دراصل فرقہ بندی دشمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے کہ مخالف قوم کو فرقوں میں بانٹ دیا جائے اور متحد نہ رہنے دیا جائے تو ان کے دلوں میں واحدانیت کا رشتہ کمزور ہوجاتا ہے۔ اور یوں مومنین خدا اور رسولﷺ کی شفقت سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ عملی طور پر بھی تجزیہ کیا جائے تو بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ فرقہ بندی قوم کو کیسے کمزور کرتی ہے۔ فرقہ بندی سے میرٹ ختم ہوجاتا ہے اقربا پروری پروان چڑھتی ہے۔ لائق لوگوں کی جگہ نالائق لوگ لے لیتے ہیں اور نتیجتاً مقدر تباہی ہے۔ فرقہ بندی کی وجہ سے ہماری باہمی توانائیاں ضائع ہوجاتی ہیں ہم ایک دوسرے کے خلاف اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیتے ہیں۔ ہم میں باہمی پیار و محبت ختم ہوجاتا ہے اور ہم ایک دوسرے کے کام نہیں آتے۔
ضرورتیں بڑھ جاتی ہیں لوٹ کھسوٹ شروع ہوجاتی ہے۔ ایک گھر کے چھ افراد الگ الگ رہ رہے ہوں ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تو یقینا ان کے اخراجات میں اضافہ ہوگا اس طرح بین الاقوامی صورتحال میں بھی مسلم ممالک اکٹھے ہوکر چلیں ایک دوسرے کے کام آئیں ایک دوسرے کی مدد کریں تو وہ مالی طور پر مستحکم ہوجائیں گے۔ بصورت دیگر جب ہم فرقہ بندی کا شکار ہوتے ہیں تو ہماری عالمی سوچ بھی یکساں نہیں رہتی اور ہم مسلمان کچھ ایک گروہ کے ساتھ کچھ دوسرے گروہ کے ساتھ ہوجاتے ہیں ہماری یکجہتی ختم ہوجاتی ہے اور اقبال نے جو تلقین کی تھی کہ
؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کا شعر
اور جو یکجہتی کا خواب دیکھا تھا پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔ ہم عالمی طور پر جب ایک سوچ کے حامل نہیں ہوتے تو غیر اقوام اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور ہمیں پستیوں کی طرف دکھیل دیتی ہے۔اقبال نے اسی بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ہم مسلمانوں کا نفع نقصان ایک ہے ایک مسلمان کا نقصان سب مسلمانوں کا نقصان ہے ایک کا نفع سب کا نفع ہے۔ اسی طرح ہم ایک دین ایک خدا ایک نبی ایک حرم پاک اور ایک ہی قرآن پر ایمان رکھتے ہیں لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ پھر بھی الگ الگ کیوں ہیں؟
؎ منفت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
؎حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک