حب الوطنی

پاکستان عطیہ خداوندی ہے ۔ اس میں سمندر ہے ، پہاڑ ، صحرا ، میدان ہیں، دریا اور نہریں ہیں، ہر قسم کے اجناس ، پھل اور سبزیاں ہیں۔ تیل ، گیس، نمک، سونا، کوئلہ اور جپسم غرض ہر قسم کی معدنیات سے مالا مال ہے۔ اس میں ایدھی کی انسان دوستی ، ارفع کریم کی ذہانت ، جاوید میانداد کا چھکا ہے۔ دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ، 20میں سے 8بلند ترین چوٹیاں اس میں ہیں۔ ساتواں نیوکلئیر پاور ہے، چوتھی کروز میزائل بنانے والی قوم ہے ۔ اس کے دفاع کے لئے دنیا کی بہترین فوج ہے ۔ غرض دنیا بھر کی تمام نعمتوں سے مزین اللہ تعالی ٰ کی بہترین نعمت ہے۔صرف ہماری نیت اور رویے مثبت ہوںتو اس جیسا ملک روئے زمین پر موجود نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ من میں کھوٹ ہو تو دعا ، عطا اور محبت تینوں راستہ بدل لیتی ہیں۔ ہمارے اجتماعی رویوں سے لگتا ہے کہ ہم کفران نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہی ملک سے بغاوت ہماری زوال پذیر سمت کی نشاندہی کرتی ہے۔ نا شکری اپاہج یا بانجھ نہیں ہوتی بلکہ بچے پیدا کرتی ہے، جن کے نام گلہ ، شکوہ ، شکایت اور مایوسی وغیرہ ہیں۔ یہ سب بچے ہمیں پریشانیون اور الجھنوں میں مبتلا کر کے خوشیوں اور خوشحالی سے دور رکھتے ہیں۔ یوں ہماری زندگی میں رس پیدا نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے ہم اجتماعی طور پر ایک خشک ،غیر مربوط ، ادھوری اور غیر مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ Dissatisfaction کی اس بیماری کی وجہ وٹامن شکر کی کمی ہے۔ یہ بیماری مریض کا وہی حشر کرتی ہے جو اس وقت ہم سب کا ہو رہا ہے۔ سیاستدانوں نے ہمیں سکھایا کہ ہم سندھی ، پنجابی، بلوچ اور پٹھان ہیں اور قومیت کو ترجیح دی۔ مذہبی رہنمائوں نے ہمیں سکھایا کہ ہم بریلوی، سنی، دیو بندی اور اہل حدیث ہیںاور مذہب کی بجائے مسلک سکھایا۔ ہمارے ماں باپ نے ہمیں راجپوت ، آرائیں، جٹ ، گجر، ملک ، خان اور مغل وغیرہ سکھا کر اس پر فخر کرنے کی تلقین کی اس طرح ذات برادری کو نمایاں کیا۔تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ سنجیدگی کے فقدان کے سبب ابھی جاری ہے۔ مگر بد قسمتی سے وہ لوگ غالباً مر چکے ہیںجنہوں نے سکھانا تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں۔ اب تو مذہبی فرقہ واریت سے زیادہ خطر ناک سیاسی فرقہ واریت ہو چکی ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں کے عوام اپنے لیڈروں کی پوجا کرتے ہیں۔ مذہی لوگ تو صرف اللہ اور رسول کی پیروی اپنے اپنے طریقے سے کرتے ہیں۔کرنل ابدال بیلا نے اپنی کتاب "پاکستان کہانی"کے انتساب میں لکھا ہے کہ "قائد اعظم کے نام جن کے دئے ہوئے پاکستان میں رہتے ہوئے ان سے آنکھ ملانے کا حوصلہ نہیں۔
ہماری حب الوطنی کا یہ عالم ہے کہ چار مختلف مذاہب کے ممالک انڈیا، امریکہ ، روس اور اسرائیل ہمارے وطن کو توڑنے کے لئے یکجا ہیں۔ مگر ہم مہاجر ، سندھی ، بلوچ ، پٹھان اور پنجابی اپنے وطن کے لئے ایک ہونے کے لئے تذبذب کا شکار ہیں۔ جبکہ ہمارا مذہب ،اللہ، رسول ، قرآن اور کعبہ ایک ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے دبئی میں ایک کانفرنس میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ ہندوستان اور چین کے لوگ کروڑوں خدائوں کو مانتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کے ہاں ہزاروں تہذیبیں آباد ہیںپھر بھی وہ امن سے رہتے ہیں۔ جبکہ مسلمان خدا ، رسول، قرآن اور کعبہ ایک ہونے کے باوجود منتشر ہیں اور اکٹھے نہیں چل سکتے۔اپنے وطن کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا ہو تو ہندوستان میں رہنے والے 180ملین مسلمانوں 25ملین عیسائیوں اور 30ملین سکھوں کی بد ترین حالت دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے یا پھر بوسنیا ، شام ، عراق، کشمیر اور فلسطین کے لوگوں سے پوچھیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ اپنی دھرتی کی محبت اور قدر آکسیجن کی طرح ہے جس کی ضرورت ہمیں آخری سانس تک رہتی ہے۔میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں بوسنیا میں تعینات تھا۔ فسادات اور لڑائی کے بعدIEBL(Inter Entity Boundry Line) کے اندر مسلمانوں کی اکثریت تھی۔جو دوسرے علاقوں سے منتقل ہو کر یہاں آگئے تھے۔ جبکہ اس لائن کے باہر سرب عیسائی اور کروٹ عیسائی آباد ہو گئے تھے۔ان کو نقل و حرکت کی آزادی تھی مگر عملی طور پر یہ ممکن نہیں تھا کہ مسلمان IEBLکے باہر یا عیسائی IEBLکے اندر چل پھر سکیں۔ ہم اقوام متحدہ کے مانیٹر ہونے کی حیثیت سے دونوں طرف آتے جاتے تھے اور مقامی لوگوں سے رابطے میں بھی رہتے تھے۔جب بھی ان سے ملتے تو وہ آنکھوں میں حسرت اور امید کی چمک لئے فوراً درخواست کرتے تھے کہ دوسرے علاقے میں ان کی آبائی قبروں یا تباہ حال گھروں کی تصویر بنا کر انہیں لا دی جائے یا پھر رات کے اندھیرے میں ہی ان کو یہ جگہ دکھا دی جائے تا کہ انہیں تشفی ہو جائے۔ہم نے غداری ، کفر، وطن فروشی ، قلم فروشی، ضمیر فروشی اور عوام فروشی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کی لوٹ سیل لگا دی ہے۔ جس نے عدم برداشت اور نفرتوں کی فصل تیار کر دی ہے۔ یہ دکھ بھری حقیقت ہے کہ جتنی بھی نفرتیں پھیلائی گئی ہیں وہ تعلیم یافتہ اور ذمہ دار لوگوں نے پھیلائی ہیں۔ ان پڑھ اور عام شہری نے تو محبت اور محنت کے ساتھ آسانیاں ہی تقسیم کی ہیں۔ یہ لوٹ سیل کی دکان بند کرنے کی ضرورت ہے۔محب وطن بننے کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا جائے بلکہ یقینا وہ استاد محب وطن ہیں جن کو دیکھ کر طلباء اپنے گریبانوں کے بٹن احتراماً بند کر لیں۔ وہ ڈاکٹر بھی محب وطن ہیں جن کی شفقت اور محبت بھری گفتگو سے مریض کی آدھی بیماری رفع ہو جاتی ہے۔ وہ معتبرین جو گائو ں اور شہر میں تنازعات کو بڑھنے نہیں دیتے اور وہ مرد جو کسی کی بہن بیٹی یا بہو کو دیکھ کر نظریں جھکا لیتے ہیں یقینا محب وطن ہیں۔ وہ علماء محب وطن ہیں جو احترام عادمیت کا درس دیتے ہیں۔ وہ شاعر ،ادیب اور دانشورجو معاشرے میں ظلم اور نا انصافی کا نوٹس لیتے ہیں۔ وہ منصفین جو بلا تمیز رنگ و نسل دل میں خوف خدا لئے لوگوں کو انصاف فراہم کرتے ہیںبھی محب وطن ہیں۔ وہ پارلیمنٹیرین بھی یقینا محب وطن ہیں جو انتظامی محکموں میں بے جا مداخلت نہ کر کے انہیں قاعدے اور قانون کے مطابق کام کرنے کا موقع دیتے ہیں۔پورا تولنے والا دکاندار ، خالص دودھ بیچنے والا دودھ فروش، افسر کے لئے رشوت نہ لینے والا چپڑاسی، اصل پرزے لگا کر گاڑی مرمت کرنے والا مستری، محنت کرنے والا کسان، دلجمعی سے پڑھنے والا طالب علم، میچ فکسنگ سے اجتناب کر کے ملک کی عزت کے لئے کھیلنے والا کھلاڑی یقینا سب کے سب محب وطن ہیں۔یہ دھرتی ماں ہماری طاقت، شناخت اور سکون کا ذریعہ ہے۔ اسے توانا ، سر سبز اور شاداب رکھنا ہماری ضرورت اور ذمہ داری ہے۔اس کے کمزور ہونے سے ہمارے سماج کی ریڑھ کمزور ہو گی اور بغیر ریڑھ کی ہڈی کے سماج کیسا ہوتا ہے یہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ایک دوست نے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ مجھے لکھا تھا کہ حب الوطنی موسم نہیں جو مدت پوری کرے اور رخصت ہو جائے، ساون نہیں جو ٹوٹ کر برسے اور تھم جائے، آگ نہیں جو سلگے ، بھڑکے اور راکھ ہو جائے، آفتاب نہیں جو چمکے اور ڈوب جائے، پھول نہیں جو کھلے ، مہکے اور مرجھا جائے۔ حب الوطنی تو سانس ہے جو چلتی رہے تو سب کچھ رک جائے تو کچھ بھی نہیں۔