ایک تھیPDM

پاکستان کی ستر سالہ سے زائد تاریخ میں حزب اختلاف نے بے شمار اتحاد بنائے ، منتخب یا بقول حزب اختلاف غیر آئینی یا بے ایمانی سے بنی حکومتوں کیخلاف احتجاج ہوئے ، نوابزادہ نصراللہ خان سمیت بڑے نامی گرامی سیاست دانوں نے حزب اختلاف کے سربراہی کی ، قومی اتحاد از خود بڑا اتحاد تھا یا شہید ذولفقار بھٹو کیخلاف ایک مضبوط اتحاد ، حزب اختلاف کا اتحاد ہو یا حکومت کے ساتھ دینے والے جنہیں اتحاد ی کہا جاتا ہے اس میں شامل جماعتیں اپنے اپنے نظریات لئے ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور انکا ٹارگٹ اپنا اپنا ہوتا ہے اور جہاں تک ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیابی ہو اس وقت تک وہ اتحاد بنے رہتے ہیں ، مگر ’’ نئے پاکستان ‘‘میں بننے والا حالیہ اتحاد جسے ’’PDM‘‘ کا نام دیا گیا ، یعنی پاکستان جمہوری اتحاد ، جو ایک قانونی اور جمہوری حکومت کے خلاف بنایا گیا ( پاکستان کے تحریر شدہ آئین کے تحت ایوان میں حلف اٹھانے والے اراکین قانونی ہی ہوتے ہیں) ، پی ڈی ایم اتحاد نے اپنے بیانات ، اورعمل سے اس اتحاد کو جلدہی اپنے انجام تک پہنچا دیا ، کچھ قومی سیاسی جماعتیںایک قدم اتحاد کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں مگر دوسرے ہی قدم کچھ ایسا اقدام کر بیٹھتی ہیں کہ کئی قدم پیچھے چلی جاتی ہیں اور حکومتی اراکین بغلیں بجانی شروع کردیتے ہیں وہ بغلیں بجانے میں حق بجانب ہیں ۔ سب سے بڑی جماعت اس اتحاد میں مسلم لیگ ن ہی نظر آتی ہے جو پاکستان کے چاروں صوبے میں ہے ، پی ڈی ایم میںشامل جماعتیں تحریک ، لانگ مارچ ، جلسوں، کے نتائج کی روشنی میں ملنے والے ثمر سے بھی لطف اندوز ہونے کی آس لگائے بیٹھی ہیں ، ساتھ میں اپنی صوبائی سیاست ، اور پہلے سے حاصل ثمرات کو چھوڑنے پر بھی تیار نہیں ۔پی ڈی ایم کی دوسری بڑی جماعت پی پی پی کے فعال رہنماء بلاول بھٹو زرداری کے اس مشورے سے کہ تبدیلی کیلئے تحریک عدم اعتماد لائی جائے نے حکومتی ایوانوں میں شادیانے بجوادیئے ، ان شادیانوں کا بجنا ایک لازمی امر تھا ، چونکہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیابی کا منہ کم ہی دیکھتی ہے، بلاول کا یہ بیان حزب اختلاف کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگانے کے علاوہ کچھ نہیں ، اس طریقہ کار سے تحریک انصاف کی حکومت بھی انکاری نہیں چونکہ اراکین کا ایمان کا سب کو علم ہے اس کا مظاہرہ ماضی قریب میں سینٹ میں ہوچکا ہے ، نیز ہر انتخاب میں ہوتا ہے پارٹی کے سربراہ خود ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے اراکین اتنے تھے ، ووٹ کم کیسے ہوگئے؟؟ اخبارات میںبیٹھے یا چینلز پر بیٹھے دانشوروں کو اب پتہ چلا کہ عرصہ ہوا اب پی پی پی ’’انقلابی‘‘ جماعت نہیں رہی۔اسکی سیاست صوبہ سندھ تک محدود ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے نہ استعفیٰ ہونگے نہ ہی نئے انتخابات کا مطالبہ اس لئے ’’حصہ بقدرجثہ ‘ ‘پر ہی اکتفاء کیا جائے ۔ وہ صوبائی حکومت میں تیسری باری سے لطف اندوز ہورہی ہے۔اقتدارواختیار کی بندربانٹ سے جو حصہ اس نے اپنے جثے کے بل بوتے پروصول کیاہے اسے بچانے کو وہ عمران حکوت کی ''B-Team'' بننے کو بھی رضا مند ہوجائیگی۔ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ کو اب اسے بھلاکر کوئی نئی گیم سوچنا ہوگی۔یہ دونوں جماعتیں اگرچہ فی الوقت پیپلز پارٹی سے جدا ہونے کو آ مادہ نظر نہیں آرہیں۔بلاول کے تحریک عدم اعتماد والے بیان کے بعد کچھ ہلکا ہلکا سرور ہے والا معاملہ نظر آرہا ہے ، دبے دبے مسلم لیگ ن کچھ نہ کچھ بول رہی ہے ۔ مولانہ فضل الرحمن کو بیان پر افسوس تو ہوگا مگر شائد ابھی کچھ بولے نہیں چونکہ انہیں معلوم ہے کہ پی ڈی ایم کی سربراہی انہیں پی پی پی کی کوششوں سے ہی ملی ہے ۔ بلاول بھٹو کا یہ بیان کسی ’’اندھا دھند ‘‘بیان کے علاوہ کچھ نہیں ، چونکہ انکے پاس اراکین کے اعداد و شمار شاید غلط ہیں۔ اعداد و شمار اپنی جگہ اہم چیز اراکین کی اپنی جماعت سے بے لوثی ہے جو اس بیان پر ختم ہوتی ہے ’’ذرا نوٹ وکھا تو میرا موڈ بنے ‘‘ بہترین جوڑ توڑ کے ماہر سابق صدر آصف علی زرداری نمبر گیم سے بخوبی واقف ہیں اس کے باوجود حزب اختلاف کو کیوں اس طرف لے جارہے ہیں ؟
ہاں ! آصف علی زرداری کا ’’ہوائوں میں رابطہ ہونا اس کی وجہ ہو ، مگر یہ رابطے تو مولانہ فٖٖضل الرحمن کے بھی ہیںجنہوںنے مولانا کے گزشتہ دھرنے میں انہیں دھوکہ دیا بقول مولانا کے۔نیز یہ رابطے تو شہباز شریف اور خواجہ آصف کے بھی ہیں وہ ان ہوائی رابطوںسے کیوں لا علم ہیں۔ اس روشنی میں یہ پی پی پی کا موقف سندھ اسمبلی حکومت کو بچانے کے علاوہ کچھ نہیں، انہیںصاف نظر آتا ہے اگر کسی تحریک کے نتیجے میں خداناخواستہ حکومت گھر بھی گئی تو پی پی پی کو سندھ کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا جبکہ زیادہ فائدہ پنجاب میںمضبوط قدم کی وجہ سے مسلم لیگ ن کا ہی ہوگا۔ پی پی پی کی سیاسی سوچ اور طریقہ سیاست کے بارے ایک مرتبہ شاید پہلے بھی لکھا کہ جب سابق وزیراعظم کے ہاں نواز شریف ملک سے باہر جلاوطنی پر تھے اس وقت شہید بے نظیر بھٹو جدہ تشریف لائی تھیں میاں نواشریف سے آئندہ کی شفاف سیاست کرنے کے وعدے وعید ہوئے تھے معاہدے ہوئے تھے ، بے نظیر کے جانے کے بعد میاں صاحب کے ہاں حسب معمول شام کا بڑا کھانا تھا ، وہاں میاںصاحب بے نظیر کی مثبت سیاسی سوچ کی پر زور تعریف کررہے تھے ، اس وقت بھی میاںشہباز شریف بے نظیر کی تبدیل شدہ سیاسی سوچ پر مشکوک رائے رکھتے تھے ، کھانے پر راقم نے کہا کہ میاں صاحب اتنی تعریف نہ کریں پی پی پی کی اپنی سیاست ہے وہ جنرل مشرف کو دکھانے یا بلیک میل کرنے کیلئے آپکے ساتھ ملاقاتیں کرتی ہے ، میاں صاحب نے اس رائے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے تھے ، کچھ عرصے بعد میاں صاحب لندن چلے گئے ، میثاق جمہوریت کے چرچے تھے، ایک شام ٹی وی پر دیکھا کہ شہید محترمہ دبئی میں جنرل مشرف سے ملاقات کررہی تھیں ، لندن فون پر میاں نواز شریف کو فون پر ٹی وی کی طرف توجہ دلائی وہ بھی وہی خبر دیکھ رہے تھے اور افسردہ تھے ان جملوں کے ساتھ ’’کس پر اعتبار کریں ‘‘؟ بہر حال حکومتی اراکین کی اس بات میںصداقت ہے کہ حزب اختلاف روز روز اپنے بیانات میں تبدیلی کی بناپر اپنا وقار کھو چکی ہے ، اتحاد میں شامل جماعتوںکو راہ نئی سوچنی ہوگی،چند ماہ کے اس کھیل میں پی ڈی ایم کے حامی عوا م کو مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملا ،اس لئے اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’ایک تھی حزب اختلاف ۔