گورے بچے کا ایک چبھتا سوال…

میری یہ بھرپور کوشش رہتی ہے کہ پاکستان اور اہل وطن کے حوالہ سے ایسی اچھی خبروں کا کھوج لگائوں جن سے اگر زیادہ نہیں تو کم از کم انگلستان میں جوان ہونے والی نئی نسل کا پاکستان کے سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی اور اقتصادی موضوعات پر پوچھے مشکل ترین سوالات کا دیانتداری سے جواب دے پائوں۔ متعدد بار پہلے بھی انہی سطور میں یہ روشنی ڈال چکا ہوں کہ برطانوی سوسائٹی میں پروان چڑھنے والے بچوں کی سوچ‘ فکر و نظر اور کسی بھی موضوع پر بحث کرنے کا انداز پاکستان میں زیرتعلیم طلبہ و طالبات سے قطعی مختلف ہے۔ مذاق مذاق میں یہاں کے بچے والدین سے بعض اوقات ایسے سوالات پوچھ لیتے ہیں جن کے فوری جواب کیلئے والدین کو کئی مواقع پر دروغ گوئی کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے جسے یہ بچے اپنی توہین تصور کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یوں کئی مرحلوں پر والدین کو ہزیمت کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ پاکستانی سیاست کا موضوع برطانوی پاکستانیوں کا چونکہ دل پسند مشغلہ بن چکا ہے اس لئے اپنے پسندیدہ مفرور لیڈروں کی کارکردگی کا ذکر جب گھروں میں اپنے بچوں کے سامنے اردو یا پنجابی میں کرتے ہیں تو بچوں کو اپنے ان والدین پر ترس آنے لگتا ہے۔ جنہوں نے سخت سردی‘ برفباری اور 12 گھنٹے کی شفٹوں سے حاصل کئے پونڈوں سے انہیں پالا پوسا اور بڑا تو کر لیا مگر اپنی سوچ کے دائرہ کار کو ابھی تک تبدیل نہیں کر پائے۔ اردو زبان انہیں پڑھائی اور نہ ہی بولنا سکھائی مگر گھروں میں انہیں اردو میں باتیں کرنے کی تلقین کرتے ہیں جبکہ والدین کا یہ طرزعمل ان کی سوچوں پر بری طرح اثرانداز ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں پروان چڑھنے والی اپنی نئی نسل کے فکری رویوں کا اب ہم احترام کریں۔
پاکستان کے بارے میں انگریزی پریس میں آئی سنسنی خیز خبروں کی تفصیلات معلوم کرنے اور ملک کو درپیش معاشی چینلجز اور پی آئی اے اور ریلوے کی زبوں حالی میں بھی انہیں کوئی دلچسپی نہیں مگر اگلے روز ہماری باکمال لوگوں کی لاجواب سروس ’’پی آئی اے‘‘ کے ٹرپل سیون طیارے کو جو مسافروں کو لیکر وطن عزیز اڑان بھرنے والا تھا کوالالمپور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر روک کرمقامی اتھارٹیز نے اسے ضبط کرتے ہوئے یہ حکم صادر کر دیا کہ پی آئی اے کے اس طیارے کو روکنے اور ضبط کرنے کی بنیادی وجہ پیسوں کی بروقت ادائیگی نہ کرنے کا معاملہ ہے۔ اس فیصلے سے دنیا بھر میں پھیلے باکمال لوگوں کی جو رسوائی ہوئی‘ بیان کرنا ممکن نہیں۔ ویتنامی کمپنی سے ٹرپل سیون طیارہ Lease پر لیاگیا تھا۔ ان شرائط کے ساتھ کہ اقساط مبینہ طورپر وقت پر ادا کی جائیں گی۔ اس سلسلہ میں یہ معاملہ 6 ماہ قبل جب بگڑا تو کیس برطانوی عدالت تک جا پہنچا۔ اب یہ کیس یہاں زیرسماعت تھا کہ ویتنامی کمپنی نے ملائشیا جا کر حکم امتناعی حاصل کر لیا اور یوں طیارہ روکنے اور ضبط کئے جانے کے احکامات سے دنیا بھر میں جو ہماری جگ ہنسائی ہوئی اورجو ہزیمت اٹھانا پڑی اور جس طرح برطانوی پاکستانیوں کو اس مرتبہ ندامت سے دوچار ہونا پڑا‘ اسے تو ’’رضائے ربی‘‘ سمجھ کر ایک بار پھر ہم درگزر کر بھی لیں گے مگر اس افسوسناک واقعہ کے تناظر میںجو سوالات یہاں میرے گورے دوست کے 16 سالہ بچے Farnces نے مجھ سے اگلے روز ٹیلیفون پر پوچھے‘ اس کا صاف و شفاف جواب دینے میں ’’اپنا ٹڈ ننگا‘‘ کرنے کی وہ قومی مجبوری جس کا ان سطور میں اکثر و بیشتر ذکر کرتا رہتا ہوں‘ بری طرح پھر آڑے آئی۔ فرانسس A لیول کا ہونہار سٹوڈنٹ ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جنگی‘ کمرشل اور برٹش ایرو سپیس میں تیار ہونے والے جیگور طیاروں کے انجنوں کا انجینئر بننا چاہتا ہے۔ بی بی سی اور آئی ٹی وی پر پاکستان کے حوالے سے جونہی کوئی منفی رپورٹ دیکھتا ہے مجھے فون کرکے تفصیلات مانگنا شروع کر دیتا ہے حالانکہ اس کا والد جو خود بھی ایئرو ناٹیکل انجینئر رہ چکا ہے‘ اسکی اس ’’معلوماتی حرکت‘‘ پر اسے اکثر و بیشتر سرزنش بھی کرتا ہے مگرمیری جانب سے دی گئی Motivation سے اس میں اچھی خاصی خوداعتمادی پیدا ہو چکی ہے۔پی آئی اے کے حالیہ افسوسناک واقعہ کو بی بی سی پر دیکھنے کے باوجود اس کی خواہش تھی کہ اس واقعہ کے بعض مندرجات کا سواد وہ میرے لفظوں سے حاصل کرے۔ والد نے روکا بھی مگر فرانسس کی ضد کے آ گے اسے اپنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور یوں فرانسس نے اپنے پہلے سوال کا آغاز مجھ سے پی آئی اے کی فضائی تاریخ کے حوالے سے کیا۔
پاکستان کی فضائی تاریخ میں 1955ء سے خدمات سرانجام دینے والی آپ کی فضائی کمپنی کے ٹرپل سیون کی ملائشین حکام کی جانب سے مبینہ طورپر طیارہ ضبط کرنے کا اتنا بڑا واقعہ رونما ہو گیا۔ مسافروں کو الگ پریشانی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پی آئی اے کے نام کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی مگر کیا وجہ کہ حکومت پاکستان انتظامیہ اور متعلقہ وزیر تک نے واقعہ کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی فوری ضرورت تھی۔ طیارہ اگر لیز پر حاصل کیا گیا تھا‘ بقول انتظامیہ ویتنامی کمپنی سے لیز پر حاصل کئے اس طیارے کی قسطوں کی رقوم کے بارے میں برطانوی عدالت میں مقدمہ بھی زیرسماعت تھا اور کمپنی نے ملائشیا میں حکم امتناعی بھی حاصل کر رکھا تھا۔ مطلب ویتنامی کمپنی نے ہوشیاری سے کام لیا مگر سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کمپنی اور پی آئی اے کے مابین کئے گئے لیز معاہدے میں شامل شرائط کا احترام آخر کیوں نہ کیا گیا؟ فرانسس بولے ہی جا رہا تھا اور میں بھی چاہتا تھا کہ مستقبل کا یہ انجینئر جہاں تک ممکن ہو سکے اپنی تکنیکی سوچ کے خزانے خالی کر ہی لے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک لیز پر طیارے حاصل کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب کئی ترقی پذیر ممالک نے اپنے آپ کو Lease Business سے آزاد کروا لیا ہے مگر پی آئی اے کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو 65 برس تک فضائی دنیا پر حکومت اور متعدد ریکارڈ قائم کرنے کے باوجود آج تک اپنے نئے طیارے نہیں خرید پائی جو کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
فرانسس نے بالآخر اپنی بات ختم کرتے ہوئے مجھے کچھ روشنی ڈالنے کی استدعا کی۔ سچ تو یہ تھا کہ اس بچے کے بعض سوالات میں اچھا خاصہ دم تھا۔ اور مجھے اپنا ٹیڈ ننگا کرنے کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ اسے میں ایسا کوئی غیرمنطقی جواب نہیں دینا چاہتا تھا جس سے اسے مزید سوالات کرنے کا موقع ملتا۔ فرانسس! اپنے بیشتر سوالات کا جواب گو تم بی بی سی اور برطانیہ کے مؤقر اخبارات کے مطالعہ سے حاصل کر چکے ہو مگر پھر بھی تمہارے کئے بعض سوالات کا جواب دینا چاہوں گا۔ میں نے اسکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا پی آئی اے کی زبوں حالی اور لیز پر خریداری کا جہاں تک معاملہ ہے تو اس میں فقط حکومت ہی نہیں‘ انتظامیہ سمیت کئی دیگر عوامل بھی شامل ہیں جن پر بلاشبہ توجہ نہیں دی گئی۔ جہاں تک طیارے کی لیز خریداری کا تعلق ہے تو ہر لیز خریداری کی ٹرم اینڈ کنڈیشنز ہوتی ہیں۔ اقساط وقت پر نہ دینے کا کیس جب لندن کورٹ میں تھا تو ویتنامی کمپنی کو ملائشیا میں حکم امتناعی کیوں لینا پڑا۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کا جواب پی آئی اے سے مانگا جا سکتا ہے؟