رام، مخالفین کو چڑانے کا ذریعہ بن گیا

’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘ لمحات موجود میں بھارت اس مصرع کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر جب سے بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی حکومت آئی ہے بھارت کی سرزمین مسلمانوں کیلئے ایک وسیع عقوبت خانہ بن چکی ہے اور جن ریاستوں یعنی صوبوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں تو مسلمان ایک خاص ایجنڈے کے تحت نشانہ ہیں۔ لیکن اس مسلمان دشمن ایجنڈے میں اتر پردیش میں آدتیہ ناتھ کی ہندو تعصب میں لتھڑی ہوئی حکومت مسلمانوں کو ہراساں وپریشان کرنے کیلئے نت نئے حربے اختیار کر رہی ہے۔ انکے خلاف جھوٹے مقدمات درج کر کے نہ صرف گرفتار کیا جا رہا ہے بلکہ انکے گھروں کو گرا کر ان کے بیوی بچوں کو بے گھر کیا جا رہا ہے جس سے لکھنؤ میں مسلمان سخت خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ حال ہی میں جھوٹے مقدمات بنا کر سماج وادی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبر پارلیمنٹ اعظم خاں انکے بیٹے حتیٰ کہ اہلیہ کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ انکے اسی پارٹی کے دوسرے رکن پارلیمنٹ عتیق احمد کے قریبی ساتھی آصف درانی کے مکان کو منہدم کر دیا گیا ۔ اس ریاست میں مسلمان تاجروں، ارکان پارلیمنٹ سمیت ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے آدتیہ ناتھ کی متعصب حکومت کی چیرہ دستیوں کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ کرنیلی کالونی میں واقع آصف درانی کی رہائش گاہ سمیت الٰہ آباد میں اب تک 50 کے قریب مکانات کو جے سی بی مشینوں کے ذریعے گرایا جا چکا ہے۔ انکے خلاف مختلف تھانوں میں گاؤ کشی اور گائے کی سمگلنگ کے الزامات میں درجنوں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔صوبائی حکومت غیر آئینی غیر قانونی اقدامات کرے تو مرکزی حکومت اس کا نوٹس لیکر ان اقدامات کا شکار عوام کی اشک شوئی کرتی ہے لیکن بھارت میں تو مرکزی حکومت جس کا سربراہ خود تعصب کا مارا نریندر مودی ہے جو خود بھی ایسے غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کرتے ہوئے کوئی شرم و حیا محسوس نہیں کرتا ۔ وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کی ساری توجہ کیونکہ نت نئے حربوں سے مسلمانوں کو پریشان کرنے پر ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ اتر پردیش میں ان دنوں لاقانونیت عروج پر ہے۔ گھروں میں موجود ، راہ چلتی خواتین اور لڑکیوں کی جبراًعصمت دری کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہو چکا ہے۔ اغواء برائے تاوان الگ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ بیروزگاری میں اضافہ نے مسلمانوں کو ہی نہیں خود ہندوؤں کو بھی مسائل کا شکار کر دیا ہے۔ قتل و غارت معمول کی شکل اختیار کر گئے ہیں لیکن مودی کی سربراہی میں مرکزی حکومت نے اس طرف آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے بھی اس سلسلے میں کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھائی جا رہی کیونکہ وہ بھی مسلمانوں کی مؤثر حمایت کر کے یعنی انکے خلاف بی جے پی کی حکومتوں کی چیرہ دستیوں سے نجات کیلئے میدان میں آنے سے گریز کر رہی ہے اور اس خوف میںمبتلا دکھائی دیتی ہے کہ اسکے ہندو ووٹر ناراض نہ ہو جائیں ا سلئے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ فرقہ وارانہ منافرت کے جنون میں مبتلا ہو کر بھارتی آئین اور قانون کی بڑی ڈھٹائی سے دھجیاں اڑا رہا ہے۔
بی جے پی کے کارکنوں اور حامیوں کو سیاسی مقاصد کیلئے جس مذہبی جنونیت کا شکار کیا گیا تھا اسکے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا کھلا اظہار ان پر بلا جواز تشدد کرنے کے حاوی ہو گئے ہیں۔ ہاں اب وہ بی جے پی کے سیاسی مخالفین کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کرنے لگے ہیں۔ خواہ وہ سیاسی مخالفین ان سے بڑھ کر ہندو کیوں نہ ہوں۔ ا س کا شرمناک مظاہرہ 25 جنوری کو کلکتہ کے وکٹوریہ میموریل ہال میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں بی جے پی کے کارکنوں نے وزیر اعلیٰ بنگال ممتا بنر جی کے ساتھ بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔ آزادی کی جدوجہد کے ایک بڑے نام سبھاش چندر باسو کے 125 ویں یوم پیدائش کی تقریب میں وزیر اعلیٰ ممتابنر جی خطاب کیلئے آئیں تو بی جے پی کے کارکنوں نے جے شری رام کے نعروں کے ساتھ ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ انکی مسلسل نعرہ بازی اور شورشرابے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کیلئے خطاب مشکل ہوگیا ۔ یوں ساری بدتمیزی وزیر اعظم مودی اپنی آنکھوں سے دیکھ کر نہ صرف خاموش رہے بلکہ بعد ازاں نصف گھنٹے کی تقریر میں بی جے پی کے کارکنوں کی اس بدتمیزی کے حوالے سے ایک لفظ تک کہنا گوارا نہ کیا جو یقینا ان ہنگامہ پرور کارکنوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔ یاد رہے بنگال کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی ہیں۔بی جے پی کے کارکنوں میںبدتمیزی کا بنگال کے عوام نے شدید ردعمل کے ذریعہ نوٹس لیا ہے ۔ تین ممتاز سیاسی کارکن خواتین کبیر سبن، دیب لینا اور سائنی نے گڑیا ہاٹ میں احتجاجی دھرنا دیا۔ مختلف شہروں میں ترنمول چھاتر پریشد کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور مودی کے پتلے نذر آتش کئے۔ بنگال کے وزیر گوم ریب نے کہا ہے کہ بی جے پی کے کارکنوں نے وزیر اعلیٰ کی نہیں بنگال کی ریاست اور عوام کی توہین کی ہے۔ بی جے پی کو اس توہین کا بدلہ دینگے۔ یاد رہے کسی دوسرے مقرر کی تقریر کے دوران یہ نعرہ نہیںلگایا گیا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ بی جے پی نے الیکشن جیتنے کیلئے مسلمانوں کے خلاف جنون کو تو پروان چڑھایا مگر خود ہندو بھی اسکی زد میں آرہے ہیں۔ یہ دراصل بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارت میں تقسیم در تقسیم اور تباہی کے سامان کے آثار ہیں۔ بھارت میں سنجیدہ ہندو طبقے نے بھی بی جے پی کے کارکنوں کی مودی کی موجودگی میں بدتمیزی پر شدید ناپسندیدگی کا ظہار کیا ہے جبکہ سبھاش چندر باسو کی بیٹی انیتا باسو نے جرمنی سے ایک ٹویٹ میں اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور کہا کہ سبھاش چندر باسو کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے۔ انتخاب کا موسم آیا تو نیتا جی یاد آگئے ہیں۔ میرے والد اور بی جے پی کی سوچ نہیں ملتی ۔ وہ ہر مذہب کا احترام کرتے تھے جبکہ بی جے پی ایک خاص مذہب کے نام پر ان کا نام استعمال کر رہی ہے۔بی جے پی کے کردار اور نظریات کا سبھاش چندر باسو کے کردار اور نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اندازہ کیا جائے کہ بی جے پی کے ہندو توا کے پرستار حامیوں کی رام کیلئے یہ تقدیس ہے کہ جے شری رام کے نعرے کو مخالفین کو چڑانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ادھرپورے ملک میں رام مندر کیلئے چندہ مہم کے نام پر فتنہ و فساد کے بازار گرم کئے جا رہے ہیں۔ مسلمان اکثریت کے علاقوں میں ایسے چندہ جلوس زبردستی نکالے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی، حکمران بی جے پی کی ملک میں ہندو تعصب کی بنیاد پر اقلیتوں کیخلاف کارروائیوں جن میں زیادہ تر مسلمان نشانہ ہیں، بیرون ملک بھارت کے مکروہ چہرے پر ناپسندیدگی کی کالک ملی جا رہی ہے۔ امریکی تنظیموں کے شدید احتجاج کے باعث نئے صدر جوبائیڈن نے بی جے پی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بھارتی نژاد امریکیوں سونال شا اور امیت جانی کو اپنی نظم و نسق ٹیم سے نکال دیا ہے لیکن ہندو عصبیت میں مبتلا بی جے پی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا بھارت کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔