افتخار سندھو۔ وہ آیا اور وہ چھا گیا

میں ان کا ذکر اکثر کر چکا ہوں اور ہمیشہ اچھے الفاظ میں ، ضرب عضب کے دنوں میں میں نے نوائے وقت میں چند متواتر دھوا ں دار کالم لکھے ، کالموں کے بارے میں قارئین کے فون تو آتے رہتے ہیں مگر ایک صاحب جنہوں نے اپنا تعلق لاہور کے نواحی قصبے کاہنہ سے بتایا وہ انتہائی سنجیدگی مگر مدلل طریقے سے بات کرتے ہیں۔ان کا لب و لہجہ پینڈوئوں جیسا تھا ،مگر بحث کا انداز دانش ورانہ اور عالمانہ تھا ۔میں ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ اور انہیں دعوت دی کہ وہ ہمارے پی سی آئی اے کے اجلاس میں بطور مہمان شریک ہوں ۔ انہوں نے میری دعوت قبول کی ۔ان پر پہلی نظر پڑی تب بھی اندازہ نہ ہوا کہ ان کے اندر علم کا خزانہ چھپا ہوا ہے ۔ وہ کچھ عرصے کے لیے منظر سے غائب ہو گئے ،وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ہائوسنگ اسکیم بنا نے میں مصروف تھے ۔
اب کرونا نے دنیا میں قیامت برپا کی تو پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کو ایک اچھوتا خیال سوجھا کہ زندگی کو بالکل مفلوج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ لوگ کرونا کی بجائے فاقوں سے زیادہ مر جائیں گے۔ وزیر اعظم نے کنسٹرکشن کا شعبہ کھولا اور اس کے لیے بے انتہا مراعات کا اعلان کیا ۔وزیر اعظم کا خیال یہ تھا کہ اس ایک کاروبار سے چالیس کاروبار اور چل نکلیں گے ۔
میں نے فون میں کاہنہ والے دوست کا نام تلاش کیا ،ان کا نام افتخار سندھو ہے ،انہوں نے کہا کہ ان کی ہائوسنگ اسکیم بڑی کامیابی سے چل رہی ہے ۔ کرونا کی وجہ سے پی سی آئی اے کے اجلاس معطل تھے اس لیے میں نے انہیں واٹس ایپ کے گروپ میں شامل کرلیا ،جہاں ملک کے ممتاز ترین دانشور ، صحافی،بینکر،قانون دان ،جرنیل ،ڈاکٹراور جج حضرات اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔
یہ ایک کہکشاں ہے جس میںکسی نئے آدمی کے لیے جگہ بنانا ممکن نہیں تھا، لیکن وہ جو کہتے ہیں وہ آیا اور وہ چھا گیا میں نے یہ محاورہ افتخار سندھو کے بارے میں حقیقت بنتے دیکھا ، ہمارے گروپ میں جنرل حمید گل کی صاحبزادی عظمیٰ گل کے حوالے سے سود پر ایک ہلکی پھلکی بحث چل رہی تھی ۔افتخار سندھو نے اپنے ابتدائی کلمات میں ہی ،بڑے بڑے وار کردیے ،وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ قرآن نے سود کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے ،انہوں نے کئی احادیث کو بھی چیلنج کیا ،ان کا کہنا تھا کہ وہ قرآن کو چھتیس برسوں سے پڑھ رہے ہیں اور پڑھا رہے ہیں ۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ہر مسلک کا شائع کردہ قرآن کا ترجمہ اور تفسیر موجود ہے ۔ گروپ کے ارکان نے ان کی گفتگو کولگام دینے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنے نظریے پر ڈٹے ہوئے تھے ، میں نے کہا کہ اسلام منطق اور دلیل کے بجائے ایمان بالغیب کا نام ہے اور قرآن کی پہلی آیت ہی یہ واضح کردیتی ہے کہ خدا قرآن رسولﷺ اور شریعت کو ماننے کے لیے اس کے ثبوت کی ضرورت نہیں بلکہ ایمان بالغیب کی بنیاد پر اسے ماننا پڑے گا۔ اس پر افتخار سندھو کچھ ٹھنڈے تو ہوئے مگر وہ اس بات پر اڑے ہوئے تھے کہ ہمیں عقل اور دلیل کی بنیاد پر بھی مذہبی مسائل کا اور خاص طور پر سود کا جائزہ لینا چاہئے ۔
اس مرحلے پر میں نے گروپ میں فرید پراچہ صاحب کو بھی شامل کرلیا جو سود کے مسئلے پر عدلیہ کے سامنے پٹشنر ہیں۔انہوں نے بڑی تفصیل سے واضح کیا کہ پاکستان میں آئین کیا کہتا ہے ،قرارداد مقاصد کے تقاضے کیا ہیں اور علماء کے متفقہ نکات ہمارے لیے کس طرح ناگزیر ہیں ۔
عام طور پر مجیب شامی ہماری بحثا بحثی مین شامل نہیں ہوتے مگر انہوں نے بھی کچھ لقمے دیے اور میں حیران رہ گیا کہ لندن سے نوائے وقت کے کالم نگار طاہر جمیل نورانی نے تو چھ ہزار سال کی انسانی تاریخ کھنگال ڈالی ،میں بار بار گروپ میں شامل پاکستان کے چیف اکانومسٹ ڈاکٹر پرویز طاہر اور اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر سعید احمد چمن کو انگیخت کر رہا تھا کہ وہ ہماری کچھ راہنمائی کریں۔
ڈاکٹر پرویز طاہر نے تو شامی صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ اس بحث کے ذریعے اپنی دنیا سنوارنا چاہتے ہیں یا آخرت ،شامی صاحب نے جھٹ جواب دیا ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوارنا چاہتے ہیں ۔ پرویز طاہر صرف اکانومسٹ ہی نہیں بلکہ شاعر اور ادیب بھی ہیں۔ اور ممتاز کارٹونسٹ میر صاحب کے صاحبزادے بھی ۔ ان کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے شامی صاحب سے غالب کی زبان میں پوچھا آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے، سعید آسی نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نکتہ اٹھایا کہ لگے ہاتھوںحلالہ کا بھی فیصلہ کرلیا جائے ۔ اب بحث کو موخر کردیا گیا ہے۔
افتخار سندھو صاحب نے دعوت دی ہے کہ گروپ کے تمام ارکان ان کے فارم ہائوس پر تشریف لے آئیں ،کھل کر بات بھی ہو جائے گی اور گروپ کے ارکان کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقع بھی میسر ہوگا۔ سب ہی نے کہا تجویز اچھی ہے ، مل بیٹھنا ضروری ہے ۔میں نے کہا مل تو لیں گے لیکن یہ نہ ہو کہ بحث کھٹائی میں پڑ جائے اس پر ڈاکٹر فیاض رانجھا نے مجھے تسلی دی کہ افتخار سندھو سے گزارش کریں گے کہ وہ کوئی کھٹی ڈش نہ پیش کریں اور نہ زیادہ میٹھی اس لیے آپ کھٹائی سے نہ ڈریں،یوں افتخار سندھو نے اپنی علمیت، دانش، حکمت ،تدبر سے گروپ کے جغادری ارکان کے دل جیت لیے ہیں۔ اب انتظار صرف اس بات کا ہے کہ ذرا سردی کم ہواور کنکنی دھوپ میں ہم آپس میں مل بیٹھیں۔
٭…٭…٭