سی پیک میں پاکستانی زراعت کی بہتری کے مواقع موجود ہیں:ڈاکٹر عظیم خان
اسلام آباد(نا مہ نگار)سی پیک نہ صرف پاکستان کے علاقوں کو اندرونی طور پر ایک دوسرے سے بہتر طور پر منسلک کر رہا ہے بلکہ ان کی رسائی کو چین سمیت بی آر آئی کے 60سے زائد دیگر ممالک تک بھی ممکن بنا رہا ہے۔ چینی منصوبے کے دوسرے مرحلے میں سماجی میدانوں میں مشترکہ تعاون کے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں جو نہ صرف پاکستان کے شعبہِ زراعت کی ترقی اورملک میں درپیش خوراک کی کمی کو پورا کرنے میں میں مددگار ثابت ہوں گے بلکہ ایک مربوط حکمتِ عملی کے ذریعے بین الاقوامی منڈیوں تک اس کی بہتررسا ئی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس) اسلام آباد میں ہونے والے ایک خصوصی پالیسی ڈایئلاگ میں کیا گیا جس کا انعقاد پاکستان ایگریکلچر سائنٹسٹ فورم کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔ اس پالیسی مکالمے سے خطاب کرنے والوں میں ڈاکٹر محمد عظیم خان ، چیئرمین پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل ، پروفیسر انوارالحق گیلانی وائس چانسلر ہری پور یونیورسٹی اور سابق چیئرمین پاکستان کونسل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ ملک زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، خالدرحمن ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس اور ڈاکٹر عبدالوکیل صدر پاکستان ایگریکلچر سائنٹسٹ فورم شامل تھے۔پاکستان میں زراعت کے شعبے کا مفصل جائزہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر عظیم خان نے زراعت کے بہت سے ذیلی شعبوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ نہ صرف ملک میں خوراک کے تحفظ سے متعلقہ مسائل کو حل کیا جاسکے بلکہ اس کی بین الاقوامی تجارت کو بھی فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا پاکستان 2013 تک خوراک برآمد کرنے والا ملک تھا لیکن اس کے بعد خوراک درآمد کرنے والا ملک بن گیا چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں یہ بات مشاہدہ کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے زرعی شعبے کی بہتری کے اچھے مواقع موجود ہوں گے لیکن قوم ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے احتیاط سے اہداف کا تعین کرے اور ان کے لیے حکمتِ عملی طے کرے۔ پی اے آر سی کے چیئرمین زراعت کے شعبے کو کاروبار پر مبنی ماڈل کے ذریعے ترقی دینے کے حامی تھے جو کہ ان کی رائے میں خام مال کو معیاری تجارتی مصنوعات اور برانڈز میں تبدیل کر کے ان کی قدر میں اضافے کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ سی پیک راہداریوں کے آس پاس تیار کی جانے والی مختلف اشیا اور مصنوعات کا امتزاج اس سلسلے میں امکانات کو کئی گناروشن کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہاں چارہ، خوردنی تیل اور پام آئل کی تیاری اور برآمد کے بے انتہا مواقع موجود ہیں جبکہ دالیں اور تیل کے بیچ چند دیگر اشیا ہیں جن میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ انہوںنے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ پاکستان میں فصل کی کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات کی شرح ابھی بھی تشویش کا باعث ہے، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اس کا حل پیداوار، فصل میں تنوع، کٹائی کے مختلف امور کی انجام دہی میں احتیاط،بہتر پروسیسنگ اور قدر میں اضافے کے شعبوں میں کیے گئے محتاط اقدامات میں ہے۔ یہ وہ مراحل ہیں جن کی مدد سے ان امور کو بین الاقوامی تجارت کے اعلی معیار پر بھی پورا کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کی زراعت کی تقریبا 70فی صد درآمدات امریکہ، برازیل، جنوب مشرقی ایشیا، یورپی یونین اور آسٹریلیا سے آتی ہیں اور ان ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے اپنے معیار کو بہتر بنانا ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر انوارالحق گیلانی نے کہا کہ پاکستان دوسرے ممالک کے مقابلے میں اپنی زرعی ضروریات کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال میں بہت پیچھے ہے۔ انہوں نے شعبہ ِ زراعت میں جدید تکنیکی نظاموں اور طریقوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ گلوبل وارمنگ اور آب و ہوا میں تبدیلی جیسے موجودہ دور کے چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اسپیکر نے مقامی صلاحیتوں کو بڑھانے کے اقدامات اور بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کو بہتر بنانے پر توجہ دینے اور ان پر سرمایہ کاری کرنے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے ملک میں خوراک کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے فصلوں کو غذائیت بخش بنانے، آب و ہوا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاو کے قابل بنانے ، فارموں کے لیے مزید زمینوں کے حصول، چھوٹے زمینداروں کو بااختیار بنانے، پانی کو محفوظ بنانے، فصلوں اور مویشیوں کے فضلے کی ری سائیکلنگ اور عوامی آگہی مہم کے ذریعے خوراک کی بچت جیسے فوری اقدامات پر بھی زور دیا۔