منگل‘ 2 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 28 ؍ جنوری2020 ء
سپیکر بلوچستان کے ساتھ معاملہ حل ہو گیا : چیئرمین سینٹ
خیبر پی کے میں وزرا کے ساتھ ہونے والے حسن سلوک کے بعد تو یہ معاملہ حل یا طے ہونا ہی تھا۔ سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ گزشتہ روز چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اور وزیر دفاع نے جو ملاقات کی وہ خاصی نتیجہ خیز رہی۔ اب چیئرمین سینٹ جن کا اپنا تعلق بھی بلوچستان سے ہے نے یہ خوشخبری پریس کانفرنس میں دی کہ جام کمال ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ سپیکر بلوچستان اسمبلی بھی اس کانفرنس میں موجود تھے بقول شاعر
؎ہم بھی وہاں موجود تھے ہم سے بھی وہ پوچھا کئے
ہم چپ رہے ہم ہنس دئیے منظور تھا پردہ تیرا
انہوں نے ساقی کی جام کی تقسیم پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے خدا جانے نیم دلی سے یا خوش دلی سے یہ کہا کہ تحفظات سننے پر وہ حکومت کے مشکور ہیں ہم متحد ہیں۔ گویا فی الحال جام بردار کمال صاحب کو کوئی خطرہ نہیں۔ اب ظاہر ہے جس کے ہاتھ میں جام ہے وہی مے خوار میکدے میں باکمال ہے باقی تو ’’جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے‘‘ کے مصداق فی الحال انتظار کریں۔ اس امید کے ساتھ کہ ’’اگر ہے تشنگی کامل تو پیمانے بھی آئیں گے۔‘‘ یوں اس طرح بلوچستان میں بھی چائے کی پیالی میں اٹھنے والا طوفان پیالی میں ہی دم توڑ گیا۔ اس پر بی اے پی کی حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہو گا جن میں وہ دو نئے وزیر بھی شامل ہیں جنہیں چند روز قبل اسی طوفان کی بدولت وزارتیں ملیں۔
٭٭٭٭
لاہور سے کراچی جانے والی بزنس ایکسپریس کی 6 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں
معلوم نہیں شیخ رشید کو ریلوے راس نہیں آئی یا ریلوے کو شیخ جی راس نہیں آئے۔ جب سے انہوں نے وزارت سنبھالی ہے ان کی اپنی صحت بہتر سے بہتر اور ریلوے کی حالت بدتر سے بدتر ہو رہی ہے۔ یقین نہ آئے تو شیخ جی کے چہرے پر چھائی لالی نوٹ کریں جو پریس کانفرنسوں میں چھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ صرف سرخی و غازہ کی کرامت نہیں اس میں ریلوے کا خون بھی شامل ہے۔ وہی ریلوے جو سابق دور میں سرپٹ دوڑنے لگا تھا اب پھر کسی مدقوق بیمار کی طرح ہانپتا کانپتا نظر آ رہا ہے۔ پے درپے حادثات میں جانی مالی نقصان بھی شیخ جی کی زندہ دلی اور بذلہ سنجی چھین نہیں سکے۔ وہ دلہن وہی جو پیار من بھائے والے فلسفے کے مطابق گرجتے برستے رہتے ہیں۔ جتنی فکر انہیں حکومت مخالفین کی ہے۔ اگر ریلوے کی ہوتی تو آج ریلوے کی یہ حالت نہ ہوتی۔ باقی سب باتیں چھوڑیں اگر وہ کم از کم ان پے درپے حادثات کا ہی سدباب کر دیں تو ان کا ریلوے اور اس کے مسافروں پر بڑا احسان ہو گا۔ بزنس ٹرین بڑی آن بان و شان سے چلائی گئی تھی۔ اس کا سفر بھی مہنگا ہے مگر حادثات والی لسٹ میں اس کا نام بھی عام ٹرینوں کے ساتھ آنا کیا افسوسناک نہیں۔ اب تو واقعی لوگ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں۔ اگر ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانا ہے تو مسافروں کو اس خوف سے آزاد کرانا ہو گا حادثات پر قابو پانا ہو گا۔
٭٭٭٭
توانائی کے منصوبوں کا ذکر ہوتے ہی جم خانہ کی بجلی چلی گئی
واپڈا کی طرف سے جمخانہ میں منعقدہ اس تقریب میں بڑے جوش و خروش سے بجلی کے نئے نئے منصوبوں کا ذکر سن کر ابھی شرکائے محفل کی رگوں میں بجلی دوڑنا شروع ہی ہوئی تھی کہ کسی رقیب روسیاہ کی طرح بجلی نے ڈھیروں شرکا کے سامنے واپڈا والوں کی مٹی پلید کر دی اور کسی آوارہ حسینہ کی طرح چشم زدن میں غائب ہو گئی۔ اس پر ظاہر ہے شرکا نے ہنسنا ہی تھا۔ رونا تو واپڈا والوں نے ہے جو بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے اربوں کھربوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر بجلی الٹا انہی کے منصوبوں پر بجلی گراتے ہوئے اکثر غائب رہنے لگی ہے۔ معاملہ یہاں ہی ختم ہوتاتو کوئی بات نہ ہوتی۔ تقریب کے اختتام پر جب معزز گورنر پنجاب کی تقریر دلپذیر جاری تھی تو اس کم بخت بجلی نے ایک بار پھر تیکھا وار کیا اور اتنے سارے مہمانوں کے سامنے واپڈا والوں کو شرمندہ کرتے ہوئے ایک بار پھر چلی گئی۔ اس پر تو کچھ لوگ زیرلب ہنسی دبا کر مسکراتے رہے۔ کچھ لوگ جو زیادہ ہی زندہ دل تھے بے ساختہ ہنسنے لگے۔ یہ کھی کھی ہا ہا تو واپڈا والوں کے سماعت پر بجلی گراتی کافی دیر جاری رہی۔ ’’کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں‘‘ ابھی تو گرمیاں دور ہیں ابھی سے بجلی کی یہ آنیاں جانیاں تو ایک نئی کہانی سنانے لگی ہے۔
٭٭٭٭
کرونا وائرس کا شکار 3 چینی سروسز ہسپتال میں داخل
ابھی ہم ڈینگی اور کانگو وائرس سے دو بدو مقابلہ کرنے میں مصروف ہیں کہ ان کا یہ تیسرا جوڑی دار کرونا وائرس بھی رنگ میں کودا پڑا ہے۔ گرچہ دنیا کے کئی ممالک میں کرونا کی پرکاریاں جاری ہیں۔ مگر سب سے زیادہ چین متاثر ہوا ہے۔ جہاں پورا شہر بلاک کر کے وہاں کے باشندوں کے کہیں آنے جانے پر پابندی لگا کر اس مرض کو وہیں ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان میں سی پیک منصوبوں کی وجہ سے ہزاروں چینی مقیم ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ فی الفور ان کی سکریننگ کر کے اطمینان حاصل کرے۔ ورنہ بعد میں اطمینان کا سانس نصیب نہیں ہو گا۔ فی الحال تو لاہور اورملتان میں چند چینی اور پاکستانی اس وائرس کا شکار ملے ہیں۔ مگر احتیاط کی ضرورت ہے۔ جہاں جہاں خطرہ ہو وہاں سخت حفاظتی انتظامات کر کے باقی لوگوں کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ہزاروں پاکستانی طلبہ بھی چین میں موجود ہیں ان کی حفاظت کا بھی بندوبست ضروری ہے۔ ورنہ یہ بلا اپنی دوسری بہنوں ڈینگی اور کانگو کی طرح بے قابو ہو کر خطرناک ہی نہیں ہولناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مہنگائی اور صدموں کی ماری ہماری نڈھال قوم تو ابھی سے اس کے خوف سے ہی ادھ موئی ہو رہی ہے۔