بچے پڑھائو،مستقبل محفوظ بنائو
جاڑے کا موسم چل رہا ہے، پہاڑی علاقوں پر ابھی برف باری جاری ہے۔ ایسا معلوم پڑتا ہے کہ جیسے پہاڑوں نے سفید شال لپیٹ رکھی ہو۔اس دل فریب منظر کو دیکھنے کے لیے دور دراز سے لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ موسم سرما کی چھٹیوں میں تو یہاں لوگوں کا زیادہ ہجوم دیکھنے کوملتا ہے ۔مگر بعد میں بھی لوگ ہفتہ وار چھٹی کے دنوں میں یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے میں ’’مری‘‘ کالام،ناران کاغان کی نسبت زیادہ قریب اور آسان راستہ مانا جاتا ہے ساتھ ہی ساتھ یہاں کے خوبصورت مناظر بھی دیکھنے والے کو اپنے حسن کے حصار میں لے لیتے ہیں۔ اسی لیے شائد اسے ملکہ کوہسار یعنی پہاروں کی ملکہ کا کیا خوب نام دیا گیا ہے۔ ماضی میں یہاں کا بھی رستہ پرخطر بل کھاتا ہوا تھا مگر اب سڑک کھلی اور ہموار ہونے کے سبب یہاں آنے والوں کے لیے آسانی ہے۔
انسان کتنا بھی بڑا کیوں ناہو جائے دل اس کا بچہ ہی رہتا ہے ۔کچھ روز قبل مجھے بھی برف باری دیکھنے کا شوق چڑھا،اسلام آباد سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد پہاڑوں پر برف کے آثار دکھنے لگے اور جیسے جیسے ہم آگے بڑھے بلند و بالا پہاڑ برف سے ڈھکنے لگے، وہاں سیر کی غرض سے آئے بچے برف سے کھیلتے ،اچھلتے کودتے ہر کسی کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہے تھے ۔
میدانی علاقوں سے آئے بچے برف پر چلنے کے اس طرح عادی نہیں تھے جس طرح وہاں کے مقامی بچے تیزی سے چل اور بھاگ رہے تھے۔ جبکہ دوسرے بچے چڑھائی پر چڑھنے کی تگ و دو میں گر جاتے تھے مگر ہمت نہیں ہارے بلکہ دوبارہ کھڑے ہوکر چڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ کچھ نونہال ایک دوسرے پر برف کے گولے بنا کر پھینک رہے تھے تو کچھ گھوڑے کی سوری سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اکثر بچے سنو مین بنانے کی کوشش کرتے ہوئے ساتھی بچوں کو اپنے ٹھنڈے یخ ہاتھ لگاتے پھر رہے تھے جس سے بچائو کے لیے اگلا بچہ بھی اپنے برفیلے ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا تھا۔
میں دور سے بیٹھی اس منظر کو غور سے دیکھ رہی تھی کہ ان میں مجھے ایک بچہ ہاتھ میں نارنجی رنگ کا کولر لیے مقامی لباس شلوار قمیض میں زیب تن نظر آیا، چہرے پر بلا کی معصومیت عیاں تھی۔ عمر سے یہ تقریبا نو سال کا لگ رہا تھا۔ یہ بچہ ہر کسی کے پاس جاتا اور کچھ کہتا، جواب میں اگلا شخص نفی میں سر ہلا کر اپنی اپنی تفریح میں گم ہو جاتا جبکہ وہ بچہ وہیں کھڑے بچوں کو کھیلتے اور ان کی اٹھکھیلیاں دیکھنے کھڑا ہو جاتا۔
میں اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی وہاں مجھے معصومیت کے علاوہ ایک اور چیز دکھی اور وہ تھا اس کی آنکھوںمیں چھپا محرومیت کا احساس۔
اسی سوچ میں تھی کہ اچانک وہ بچہ میرے سامنے کھڑا کچھ کہہ رہا تھا، اپنی سوچوں سے واپس آئی تومیں نے اسے کچھ بولتے سنا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ــ’’باجی گرم انڈے کھالو‘‘۔
پلیز کے تاثرات بھی ظاہر ہو رہے تھے۔ میں نے قیمت پوچھی تو کہا کہ ایک 25 روپے کا۔مجھے کچھ تجسس ہوا یہ جاننے کا کہ یہ کون ہے؟
تمھارا نام کیا ہے؟
نصیب خان
پڑھتے ہو؟
جی
کونسی کلاس میں؟
تیسری
کام کے ساتھ ساتھ پڑھائی کیسے کرتے ہو؟
ابھی تین مہینے کی چھٹیاں ہیں ،جب سکول کھل جائیں گے تب نہیں کرتا کام۔
پڑھائی میں دل لگتا ہے؟
کبھی کبھی ۔
کبھی کبھی کیوں؟
انگریزی مجھے مشکل لگتی ہے،سمجھ نہیں آتی ۔
(میں نے حوصلہ بڑھانے کے لیے اس سے کہا) ابھی تیسری کلاس میں ہو اس لیے مشکل لگتی ہے۔دل لگا کر سمجھ کر پڑھو گے تو آسان لگے گی۔ جب تک کوئی چیزسمجھی نہ جائے تووہ مشکل لگتی ہے اور جب سمجھ کر پڑھیں تو آسان ہو جاتی ہے۔ ابو ّ کیا کرتے ہیں؟
مستری ہیں۔
کتنے بھائی بہن ہو ؟
تین بھائی اور تین بہنیں۔
گھر کہاں ہے؟
بھولے سے انداز میں بولا’’کوئٹہ ہے‘‘۔
میں مصنوعی حیرت سے بولی ’’اتنی دورسے روز مری آتے ہو‘‘؟
نصیب خان مسکرایا اور بولا نہیں وہاں مستقل گھر ہے،یہاںکام کے لیے سب آئے ہوئے ہیں۔ہمارا گھر قریب ہی ہے۔
انڈے بیچ کر روز کتنی کمائی ہو جاتی ہے؟
ایک سو کبھی ڈیڑھ سو انڈے فروخت ہو جاتے ہیں۔
پھر شائد اس بچے کو ہچکچاہٹ ہو رہی تھی اور وہ جانے کے لیے مڑا ،میں نے آواز دی کہ پڑھائی دل لگا کر کرو، اتنا پڑھنا کہ تم اپنا کاروبار کرو۔
وہ مسکرایا اور دوسرے سیاحوں کی جانب چل دیا۔ اسے جاتا دیکھ کر کئی سوال گردش کرنے لگے۔
روٹی نہ کھانے یا کم کھانے کا مشورہ دینے والے حکمران کیا اس بچے کو مکمل تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیں گے کیونکہ اگر مہنگائی کا یہی عالم رہا تو ہر نصیب خان اپنے باپ کی اس مہنگائی سے جنگ میں ساتھ دینے کے لیے شائد کتاب کو خیر باد کہہ دے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ بچہ جیسے ہی شعور کی سیڑھی چڑھتا ہے اس کے ہاتھ سے کتاب لے کر روزگار تھما دیا جاتا ہے۔
دیہاتی اور پسماندہ طبقہ اس وباء سے زیادہ متاثر ہے۔بات صر ف سوچنے ، سمجھنے اور لائحہ عمل اختیار کرنے کی ہے۔ جس دن ہمارے حکمران مزدور پیشہ بچوں کو سکول کا راستہ دکھائیں گے پاکستان کا مستقبل اسی دن سے روشن راہوں پر گامزن ہو جائے گا۔
حکومت کے علاوہ صاحب استطاعت افراد بھی ایسے بچوں کی مالی مدد کر سکتے ہیں۔
نصیب خان جیسے ہزاروں لاکھوں بچے ہمارا مستقبل ہیں، اگر مستقبل محفوظ نہ ہوا تو پاکستان کا نصیب بھی کسی نصیب خان جیسا ہو گا جو ہر ملک کے آگے اپنی مصنوعات برآمد کرنے کی التجاء کرے گا اور سامنے والا نفی میں سر ہلا کر آگے کی راہ لے لے گا۔