سپریم کورٹ کا نااہلی کی مدت متعین کرنے کا عندیہ‘ نوازلیگ پوری تیاری سے عدالت جائے‘ سخت رویے سے گریز کرے
سپریم کورٹ میں کنٹونمنٹ بورڈ بلدیاتی الیکشن ٹربیونل ملتان کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے پر کوئی صادق و امین نہیں رہتا‘ آرٹیکل (ایف1) 62 کے تحت نااہلی کی مدت طے کرنا باقی ہے‘ یہ فیصلہ طے کرنا باقی ہے کہ ایسی نااہلی پانچ سال کیلئے ہوتی ہے یا تاحیات۔ نواز شریف کیس میں کہہ دیا ہے اثاثے چھپانا بددیانتی ہے۔ نااہلی کے تعین سے متعلق نواز شریف کی دائردرخواستوں کی سماعت کرکے فیصلہ میں کردیا جائیگا۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا عوامی نمائندگی ایکٹ 99اور آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی میں فرق ہے۔عمران خان نااہلی کیس میں سپریم کورٹ یہ فرق واضح طور پر بیان کرچکی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا نواز شریف کیس میں قرار دے چکے ہیں کہ کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے پر آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کا اطلاق ہوتا ہے اور عوامی عہدہ رکھنے والا ایسا شخص صادق و امین نہیں رہتا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت ایک سال ہوگی‘ 3 سال‘ یا پانچ کیلئے ہے؟ یا تاحیات؟ 30 جنوری کو سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بنچ تعین کریگا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کتنے عرصے کیلئے ہے؟ اس کیس کے فیصلے میں نااہلی کی مدت سے متعلق تمام مسائل کو حل کیا جائیگا، تمام معاملات حل طلب ہیں۔ لارجر بنچ آرٹیکل 62 ون ایف پر جو بھی فیصلہ دیگا وہی آئندہ کا قانون ہوگا۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کے باعث نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کیخلاف کئی اپیلیں ایک سال سے زیرالتواء تھیں‘ ان اپیلوں میں ٹیکنیکلی میاں نوازشریف بھی فریق بن سکتے ہیں۔ مذہبی سکالر ارشاد باری تعالیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فاسق کی گواہی قبول نہیں مگر وہ توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے۔ بادی النظر میں صادق اور امین نہ ہونے کی صورت میں تاحیات نااہلی ضروری نہیں‘ قاضی القضاۃ ملزم کی اصلاح سے مطمئن ہو تو نااہلی کی مدت تاحیات کے بجائے کم بھی ہو سکتی ہے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ’’لاتقنطو من الرّحمۃِ اللہ‘‘ (اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں) اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف فرما سکتا ہے۔
گزشتہ سال اپریل میںسپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے دو ججوں نے میاں نوازشریف کو نااہل قرار دیا اور تین نے تحقیقات کیلئے معاملہ جے آئی ٹی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اکثریتی فیصلے پر عمل ہوا۔ اس فیصلے پر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جشن منایا گیا‘ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ میاں نوازشریف نے اس فیصلے پر کہا کہ ہم سرخرو ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جے آئی ٹی کو ساٹھ روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ جے آئی ٹی نے مقررہ مدت میں اپنی رپورٹ پیش کردی۔ تحقیقات کے ابتداء کے دنوں میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے جے آئی ٹی کے بارے میں رویہ سخت تھا۔ اسکے سامنے پیش ہونے کے بعد لیڈر جے آئی ٹی کے ارکان کیلئے سخت الفاظ استعمال کرتے۔ خود میاں نوازشریف جلسوں میں جے آئی ٹی کے ارکان پر برستے رہے۔ عمومی تاثر تھا کہ میاں نوازشریف اور انکے خاندان کے لوگ جے آئی ٹی کو دستاویز اور ثبوتوں کے ذریعے اپنی صفائی پیش کرنے سے زیادہ اسے دبائو میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو بنچ کیخلاف ہرزہ سرائی کی جانے لگی۔ لیڈروں میں سے کسی نے کہا لوہے کے چنے ثابت ہونگے۔ کسی نے کہا نوازشریف کیخلاف فیصلہ آیا تو فیصلہ کرنیوالے ججوں اور انکی اولاد کواسی ملک میں رہنا ہے ان سے نمٹ لیں گے۔ نااہلی کا فیصلہ آیا تو عدلیہ پر الفاظ کی یلغار شروع ہوگئی۔ نظرثانی کی درخواست اسی بنچ کے سامنے دائر کی گئی۔ کیس یکجا کرنے کی اپیل بھی کی گئی مگر دھمکیوں کی گھن گرج میں فیصلے حق میں نہ آسکے۔ مگر اکثر لیڈروں کا عدلیہ کے بارے میں لب و لہجہ تضحیک پر مبنی تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو عدالت میں کھڑے ہو کر ججوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ انہیں ہائیکورٹ نے سزائے موت سنائی جبکہ سپریم کورٹ نے فیصلہ برقرار رکھا۔
ہم موجودہ دور میں قرونِ اولیٰ کے قاضیوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ عوام کو خلفائے راشدین کے ادوار یاد آتے ہیں۔ حضرت علیؓ نے جنگ کے دوران دشمن کی گردن کاٹنے کیلئے تلوار سونتی تو اس نے آپؓ کے چہرے پر تھوک دیا۔ اسی لمحے آپؓ نے یہ کہتے ہوئے تلوار نیچے کرلی کہ اب گردن اڑائی تو اس میں میرا انتقام بھی شامل ہوگا۔ آج حکمران اپنے لئے قرون اولیٰ کے دور جیسا انصاف مانگتے ہیں مگر خود اس طرح کا انداز حکمرانی اختیار نہیں کرتے۔ انصاف کے حصول کیلئے جہاں آپ کے پاس اپنی صفائی کیلئے فول پروف ثبوت ہونے ضروری ہیں‘ وہیں عدلیہ کا احترام بھی لازم ہے۔ عدلیہ کے گریباں پر ہاتھ ڈال کر آج کے دور میں انصاف کا حصول قرونِ اولیٰ کی طرح مشکل ہے۔ حق میں فیصلہ آنے پر جشن اور خلاف آنے پر الزامات‘ تذلیل اور دھمکیاں سیاست دانوں نے سکہ رائج الوقت بنا لیا ہے۔ سیاست دانوں کے یہ آخری مقدمات نہیں ہیں‘ دیگر مقدمات میں بھی عدلیہ ہی کے پاس جانا ہے۔ کہیں ملزم بن کر اور کہیں مدعی کی حیثیت سے۔ ریلیف کیلئے عدلیہ کا احترام ملحوظ رکھنا بھی لازم ہے۔
چیف جسٹس کی طرف سے نااہلی کی مدت کا تعین‘ مسلم لیگ (ن) اور میاں نوازشریف کیلئے نااہلیت کی کم از کم مدت کرانے کا بہترین موقع ہے۔ میاں نوازشریف بارہا اپنی بحالی کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے مسلم لیگ (ن) کی قیادت ٹھوس شواہد رکھے‘ اسے بہترین وکلاء کی خدمات حاصل ہیں۔ گزشتہ مہینوں کی طرح کیس کو سیاسی بنا کر نہ لڑیں۔ وکلاء پوری تیاری کریں‘ ججوں کو آنکھیں دکھانے کے بجائے اپیل میں دلائل پر فوکس رکھیں۔ بنچ کو پورا احترام دیں۔ سپریم کورٹ اگر نااہلی کی مدت ایک دو سال نہیں کرتی تو تاحیات نااہلیت کے امکانات بھی کم ہی نظر آتے ہیں۔ میاں نوازشریف کو عدلیہ کے حوالے سے عزت و احترام کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ اسکے ساتھ ساتھ پارٹی کے ہارڈلائنر کو بھی خاموشی اختیار کرنے کی ہدایت کرنی ہوگی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ روز جڑانوالہ میں مسلم لیگ(ن) کا جلسہ ہوا‘ اس میں بھی سابق وزیراعظم میاں نوازشریف عدلیہ پر گرجتے برستے رہے۔ یہ ان حالات میں گرجے جب سپریم کورٹ انکی نااہلی کا تعین کرنے کیلئے فیصلہ کرنیوالی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024