ہم نے صحافت میں اپنے سینئرز اور بڑوں سے یہی سیکھا تھا کہ کسی اخبار میں خبر شائع کرنے سے پہلے اس کی اچھی طرح چھان پھٹک کی جانی چاہیئے۔ اس وقت تک خبر اخبار کو فراہم نہیں کی جانی چاہئے جب تک اس کی سو فیصد تصدیق نہ ہو جائے۔ اگر خبر کی تصدیق نہ ہو تو خبر کسی صورت بھی فائل نہ کی جائے۔ بطور رپورٹر ہمیں یہ تاکید کی جاتی تھی کہ جو سورس یا ذریعہ خبر یا معلومات فراہم کر رہا ہے اس کا بھی قابل اعتبار ہونا بہت ضروری ہے۔ پرانے د ور کے اخبار نویس یا رپورٹرز جب تک خود دستاویزات یا مستند مواد نہیں دیکھ لیتے تھے اس وقت تک وہ خبر فائل نہیں کرتے تھے۔ بے بنیاد خبر فائل کرنا نہ صرف اخبار یا جریدے کی سبکی کا سبب بنتا تھا بلکہ بے بنیاد خبر دینے والے اخبار نویس کا کیرئیر بھی دا¶ پر لگ جاتا تھا۔ پاکستان میں ماضی میں کئی اخبار نویسوں کو ملک کے بڑے اخباروں نے غیر مصدقہ اور بے بنیاد خبریں دینے پر ملازمتوں سے فارغ کیا بلکہ ایک زمانے میں تو بعض اخبارات جھوٹی اور غیر مصدقہ خبر دینے والے رپورٹر کو ملازمت سے فارغ کرنے کی خبر اور اس کی تصویر بھی شائع کرتے تھے۔ اخبارات غلط اور غیر مستند خبر شائع کرنے پر قارئین اور متعلقہ فریقوں سے معذرت بھی کرتے تھے۔ یہ صحافت کا ایک مسلمہ اصول تھا۔
امریکہ کے ایک معتبر اخبار واشنگٹن پوسٹ میں 28 ستمبر 1980ءکو ایک سابق امریکی خاتون صحافی جینٹ لیزلے کک Janet Leslie cook نے ایک سٹوری فائل کی جس کا عنوان تھا Jimmy's World اس سٹوری میں خاتون صحافی نے آٹھ سالہ ایک بچے کی کہانی شائع کی جس کے بارے میں موصوفہ نے لکھا کہ وہ بچہ ہیروئن کا عادی ہے‘ سٹوری میں اس آٹھ سالہ بچے کے بازو¶ں پر ہیروئن کے انجکشن لگائے جانے کے نشانات بھی دکھائے گئے تھے۔ واشنگٹن پوسٹ میں یہ خبر شائع ہونے کے بعد تہلکہ مچ گیا تھا۔ قارئین میں اس بچے Jimmy کے لئے ہمدردی کے زبردست جذبات پیدا ہوئے۔ اس وقت کے واشنگٹن کے میئر اور پولیس افسروں نے بچے کی تلاش کے لئے خصوصی آپریشن بھی شروع کیا۔ پولیس اور دوسرے اداروں کی بچے کو تلاش کرنے کی کوششیں بے سود رہیں تو پولیس حکام اور واشنگٹن کے میئر نے اعلان کیا کہ یہ خبر بے بنیاد اور من گھڑت ہے جمی نام کا کوئی ایسا آٹھ سالہ بچہ نہیں جس کی ماں دہاڑی داری کے لئے جانے سے پہلے اسے ہیروئن کا انجکشن لگا کر چلی جاتی ہے۔ اس متنازعہ خبر کو اس وقت کے واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر باب ووڈورڈ نے امریکہ میں انوسٹی گیٹیو جرنلزم کرنے والے صحافیوں کے لئے سب سے بڑے ایوارڈ Pulitzer prize کے لئے بھیج دی۔ 1981ءمیں جینٹ کک کی اس سٹوری کو امریکی صحافت کا اعلیٰ ترین ایوارڈ Pulitzer prizeبھی دے دیا گیا۔ صحافی جینٹ کک نے کچھ عرصہ کے بعد ”فالو اپ“ بھی دیا کہ مذکورہ بچہ جو ہیروئن کا عادی تھا مر گیا ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ساری سٹوری یا خبر ایک گھڑا ہوا افسانہ تھا واشنگٹن پوسٹ پر حقیقت آشکار ہوئی تو اخبار نے Pulitzer prize واپس کر دیا۔ رپورٹر جینٹ کک نے اعزاز واپس کیا اور ایک جھوٹی خبر پر معذرت کر لی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مذکورہ صحافی کی ساری تعلیمی اسناد بھی جعلی ہیں۔ جینٹ کک نے اخبار سے استعفیٰ دے دیا۔ اس رپورٹر کی اس جھوٹی خبر پر امریکہ میں بہت کچھ لکھا گیا اور ایک نغمہ نگار نے "Liar, Liar" کے عنوان سے ایک گیت بھی لکھ ڈالا تھا۔
یہ چالیس سال پہلے کا قصہ ہے۔ جب صحافت میں حقائق اور سچائی کی اہمیت تھی اور پڑھنے والے بھی اخبارات پر اندھا اعتماد رکھتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ زمانہ "Post truth" اور "Fake News" کا زمانہ ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے‘ جس میں سچ کی جگہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ نے لے لی ہے جو جس کا جی چاہتا ہے وہ کہہ دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ ایسی معلومات پھیلائی جاتی ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ لیکن ان بے بنیاد کہانیوں اور افسانوں کے چاہنے والے بھی بہت ہیں۔ وہ جذبات کی تسکین اور ایک طرح کی خوشی حاصل کرنے کے لئے ”فیک نیوز“ کو پھیلاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں اور جذبات کی تسکین یا ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ”معلومات“ کو پھیلاتے ہیں۔ بعض حلقے سوشل میڈیا کو ففتھ جنریشن وار کا ایک ”ٹول“ Tool قرار دیتے ہیں۔
قرآن ہر صورت میں جھوٹ کی مذمت کرتا ہے۔ قرآن میں واضح کہا گیا ہے کہ ”جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ہو“ جھوٹی شہادت کی بھی قرآن اور اسلام نے مذمت کی ہے اور اسے ایک گناہ قرار دیا ہے۔ حضور کی ایک حدیث کا ترجمہ ہے ”کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں کو آگے پھیلاتا ہو“ قرآن کی ایک اور آیت کا ترجمہ ہے ”سیدھی اور صاف بات کرو“۔
پاکستان میں ایک ٹی وی اینکر نے قصور کے دلخراش اور انسانیت سوز واقعہ کے بارے میں جو معلومات پھیلائیں ان کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور مذکورہ ٹی وی اینکر کو عدالت نے طلب کر رکھا ہے۔ اس کیس میں پاکستان میں "Fake News" یا سنی سنائی باتوں کو خبر کے طور پر پیش کرنے کے بارے میں عدالت کی طرف سے کوئی حتمی فیصلہ آنے کی توقع سے جھوٹ سچائی کا متبادل تو نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭٭٭