جوڈیشل ایکٹوزم اور وہ ’’لمحہ‘‘
جوڈیشل ایکٹوزم کی اصطلاح سب سے پہلے جنوری 1947 کے ’’Fortune Magazine ‘‘ نامی رسالے کے شمارے میں امریکی تاریخ دان آرتھر شلنگز جونیئر نے اپنے مضمون ’’سپریم کورٹ 1947 ‘‘ میں استعمال کی۔ وہ اپنے اس مضمون میں یہ فیصلہ نہ کرسکا کہ یہ اچھی چیز ہے یا نہیں۔جوڈیشل ایکٹوزم کا مطلب یا اس کی تعریف کیا ہے اسکے لئے امریکن بلیک لا ڈکشنری کی مدد لیں گے۔ یہ وہی ڈکشنری ہے جس کی مدد سے سپریم کورٹ نے نوازشریف کی غیر وصول شدہ تنخواہ کو اثاثہ ثابت کیا تھا اور پاکستان کے انکم ٹیکس قانون میں دی گئی تنخواہ کی تعریف(Definition )کو غیر متعلق قرار دے دیا تھا۔ بلیک لاء ڈکشنری کے مطابق جوڈیشل ایکٹوزم میں جج کسی عوامی مسئلے پر فیصلہ دیتے وقت قانونی نکات کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی رائے کو بھی اہمیت دے دیتے ہیں۔ پاکستان میں عوامی سطح پر یہ لفظ سب سے پہلے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زمانے میں سننے میں آیا جب انہوں نے بہت سے عوامی مسائل کا خود بخود(Suo Motto) نوٹس لینا شروع کیا۔ اور اس بارے فیصلے دینے شروع کئے۔ اس طرح پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوزم کا مطلب عام طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس کسی بھی معاملے پر بغیر کسی شکایت کنندہ کے خود بخود نوٹس لیتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 3/186 کے تحت مقدمہ قائم کرکے فیصلہ کرتا ہے۔ آرٹیکل3/186 سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے معاملے پر نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے جہاں کوئی انسانی حقوق کا مسئلہ عوامی اہمیت اختیار کرجائے۔
پچھلے چند ہفتوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب بہت سے عوامی معاملات کا سوموٹو نوٹس لے رہے ہیں اور ان پرسخت احکامات جاری کررہے ہیں۔وہ نہ صرف عدالت سے احکامات جاری کررہے ہیں بلکہ موقع پر جاکر بھی حالات کاجائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے پینے کے صاف پانی کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے خالص دودھ اور بھینسوں کو ٹیکے لگائے جانے کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے ہسپتالوں کی حالت زار پرنوٹس لیا۔ انہوں نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی فیسوں کی حد مقرر کردی۔انہوںنے قصور کے بدقسمت واقعے کا بھی نوٹس لیا اور خیال ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل کے لئے بڑا کردارا دا کرنا چاہتے ہیں۔ عوامی حلقے اور کچھ قانونی ماہرین بھی انکی اس جوڈیشل ایکٹوزم کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ مسائل حکومت کے متعلقہ محکمے اپنے طور پر حل کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے تو جو بھی عوام کی ریلیف دے گا یقینا اسکی تعریف ہوگی۔
کچھ قانونی حلقے جو عدالتی نظام کو سختی سے آئین کے مطابق چلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جوڈیشل ایکٹوزم پر شدید تنقید کرتے ہیں۔ انکا کہنا ہے عدالت میں کسی مقدمہ میں ایک شکایت کرنے والا شخص ہوتا ہے اور دوسرا جس کے خلاف شکایت ہوتی ہے وہ اپنا دفاع کررہا ہوتا ہے ۔جج کو غیر جانبدار رہ کردونوں کا موقف سن کر قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں چیف جسٹس صاحب کسی معاملے کاسوموٹو نوٹس لیتے ہیں تو وہ درحقیقت شکایت کنندہ بن جاتے ہیں اور جس محکمے یا شخص کے خلاف نوٹس لیا جاتا ہے وہ اپنا دفاع کرتا ہے۔ فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ شکایت کنندہ سپریم کورٹ ہے جو معاملے میں اپنی ایک رائے بناچکی ہے۔ اور فیصلہ بھی اس سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔یعنی غیر جانبدار جج اس معاملے میں موجود ہی نہیں اسلئے جس کے خلاف نوٹس لیا گیا ہے اسکے حق میں فیصلہ ہونے کا کوئی امکان موجود نہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ اسکو اپیل کا بھی کوئی حق نہیں۔ وہ صرف ریویو کی درخواست کرسکتا ہے جس کو وہی جج حضرات سنیں گے جو پہلے اسکے خلاف فیصلہ دے چکے۔ دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کے تمام محکموں کو اپنا کام کرنا چاہئے اور دوسرے محکموں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنی چاہئے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ اگر صحت اور تعلیم یا دوسرے محکمے اچھا کام نہیں کررہے تو کیا انصاف کا محکمہ یا عدالتی نظام قابل رشک کام کررہا ہے۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہے مقدمات کا فیصلہ مہینوں اور سالوں میں نہیں بلکہ دہائیوں میں ہوتا ہے۔ جس سے انصاف کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس کا یہ جواب دے دینا کہ قانون سازی حکومت نے کرنی ہے کافی نہیں ۔ مقدمات کا جلد فیصلہ کرنے کی کوئی حکمت عملی تو انصاف کے محکمہ کو بھی بنانی ہے۔ اگر لوگوں کو معلوم ہو کہ کسی بھی مقدمہ کا فیصلہ چند ہفتوں میں ہوجائے گا تو بہت سے معاملات حل ہوجائیں گے۔ مثلاً لینڈ مافیا اس وقت لوگوں کی زمینوں پر اس لئے قابض ہوجاتا ہے کہ کیونکہ اس کومعلوم ہے اصل مالک عدالت جائے گا اور اسکی پشتیں بھی عدالت کے ذریعے زمین یا جائیداد واپس نہ لے سکیں گی۔ اگر ان کو معلوم ہو کہ فیصلہ چند ہفتوں یا مہینوں میں ہوجائے گا تو یقینا اس معاملے سے باز آجائیں۔ یہ مثال آپ ہر معاملے اور محکمے پر لاگو کرسکتے ہیں جہاں زیادتی کرنے والے عدالتوں کی سست روی کا فائدہ اٹھار ہے ہیں۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب ثاقب نثار صاحب 31 دسمبر2016 کو اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے تھے یعنی ان کو ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا۔ تقریباً ایک سال وہ کسی بھی دوسرے چیف جسٹس کی طرح صرف سپریم کورٹ کے مقدمات اور معاملات دیکھتے رہے۔ لیکن پچھلے چند ہفتوں میں انہوں نے زبردست جوڈیشل ایکٹوزم کا مظاہر کیا ۔انہوں نے نہ صرف مختلف معاملات کا سوموٹو نوٹس لیا بلکہ چند زوردار تقریریں بھی کرڈالیں جن میں عوامی مسائل کو حل کرنے کا عزم ظاہر کیاگیا اور ان کے اس روئیے کو عوام اور میڈیا نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔
اپنی ایک تقریرمیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان پر ایک لمحہ آیا جس کے بعد ان میں یہ تبدیلی رونما ہوئی۔ انہوں نے اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ نہیں معلوم اس ایک لمحہ میں انکو کوئی آفاقی اشارہ ہوا یا بشری ۔ اگر تو قدرت کی طرف سے کوئی اشارہ ہو ا کہ وہ اپنا عہدے اور اختیارات کو استعمال کرکے عوام کے مسائل حل کردیں تو یہ نہایت خوش آئند بات ہے۔ اور انکے ہاتھوں پاکستان کے عوام کی مشکلات کم ہوجائیں گی اور وہ تاریخ میںنیک نام پائیں گے۔ لیکن اگر کسی انسان یا ادارے نے انکو ایسا کوئی اشارہ کیا ہے تو اس انسان یا ادارے کی نیت اور مقاصد پر نظر رکھنی پڑے گی۔ پاکستان کی تاریخ میںایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جب سپریم کورٹ نے کسی آمر کے آئین توڑنے یا معطل کرنے کو جائز قرار دیا اور ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں جب سپریم کورٹ نے آمروں کو ماورائے آئین اقدامات کی اجاز ت دی ۔ لیکن اب آئین کے ٓرٹیکل نمبر6 میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار نہیں رہا کہ وہ آئین توڑنے یا معطل کرنے کو جائز قرار دے سکے۔ لیکن آرٹیکل 3/186 کے تحت جوڈیشل ایکٹوزم کے ذریعے ماورائے آئین اقدامات کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں ایک گہرا تاثر موجود ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آئندہ حکومت میں مسلم لیگ ن یا کم سے کم شریف خاندان کو نہیں دیکھنا چاہتی۔شریف خاندان کے خلاف اب تک ہونے والے اقدامات سے نوازشریف کی مقبولت میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور اگر وقت پر الیکشن ہوجائیں تو ن لیگ کے الیکشن جیتنے کے واضح امکانات موجود ہیںاس لئے اسٹیبلشمنٹ کو ن لیگ کو باہر رکھنے کے لئے کسی دوسرے طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ان حالات میں اگر ایک ایسی شخصیت موجود ہو جس پر عوام اعتماد کررہے ہوں جیسا کہ چیف جسٹس صاحب پر اس وقت کیا جارہا ہے۔ آپ نے دیکھا مختلف معاملات میں مشکل میں گھر ے لوگ میڈیا میں کہہ رہے ہیں کہ حکومت سے کوئی توقع نہیں وہ صرف چیف جسٹس سے امید لگا رہے ہیں کہ انکو انصاف ملے گا اور انکے مسائل حل ہونگے۔ ایسے میں اگر چیف جسٹس صاحب کو یقین دلایاجائے یا وہ نیک نیتی سے یہ سمجھنے لگیں کہ موجودہ حکومتی نظام عوام کے مسائل حل نہیں کرسکتا تو وہ 3/186 کے تحت کسی ٹیکنو کریٹ حکومت کو قائم کرنے کا حکم جاری کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو نہایت بدقسمتی کی بات ہوگی۔ پاکستان جو بڑی مشکل سے جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھا ہے پھر بھٹک جائے گا اور چیف جسٹس صاحب کی ساری نیک نامی بھی خاک میںمل جائے گی۔میرے خیال میں عوام کو میڈیا کو اورسیاسی جماعتوں کو اس ممکنہ صورت حال پر نظر رکھنی چاہئے۔