نقابِ شب میں جمالِ سحر تلاش کریں
اس ہی بات کو انگریزی میں کہتے ہیں ’’To Get Best Out Of The Worst‘‘۔ہوا یہ کہ اپنی زندگی کے بہتر(۲۷) برسوں میں شروع کے تقریباً ۰۲ برس کونونٹ اسکول کی نظر ہوگئے۔یعنی مغربی طرز و فکر اپنائے رہے۔۔والدین کی سختی پر جمعہ اور عید پر مسجد چلے جاتے۔لیکن پریکٹیکل مسلمان نہ ہونے کے باوجودراسخ العقیدہ مسلمان تھے۔یہ المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں پنج وقتہ نمازی بمشکل دس فی صد ہی ملیں گے۔یہ ہم کسی گیلپ سروے کی بدولت نہیں کہہ رہے بس الل ٹپ ہی سمجھئے۔اس لیئے کمی بیشی کی گنجائش قارئین کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں۔ اس ہی الل ٹپ قائدے سے پریکٹیکل مسلمان یعنی نماز روزے کے پابند عرب ممالک میں ۰۹ فی صد ملیں گے۔لیکن دنیا بھر میں راسخ العقیدہ یعنی اسلام سے محبت اورمسلمانوں کا درد رکھنے والے پاکستان میں ہی ملتے ہیں۔برما، بھارت، فلسطین، کشمیر کے علاوہ کہیں بھی مسلمانوں پرظلم یا ان کی حق تلفی ہو تو پاکستان سے ہی آواز اٹھتی ہے۔کہیں بھی اسلام اور غیر مذہبوں کا ٹاکرہ ہو تو ہم پاکستانی خم ٹھوک کر کھڑے ہو جاتے ہیںپریکٹیکل اور نان پریکٹیکل مسلمانوں کا فرق بتانے کے لیئے اتنا ہی کافی ہے۔ تو ہم کچھ ایسے ہی تھے۔ہم پر نہ کسی واعظ کا اثر ہوتا نہ کسی بزرگ کا۔ لیکن ایک بار جب ہم تقریباً ۵۳ یا ۷۳ برس کے تھے اپنے ایک نوجوان کولیگ کو،جو بمشکل ۵۲ برس کا ہوگا، نماز پڑھتے دیکھ کر کچھ ایسے شرمندہ ہوئے کہ اس دن کے بعدسے اپنی دانست میں کوئی نمازواجب الادا نہیں ہے۔ لیکن بس تعداد ہی پوری کرتے رہے یعنی نہ جماعت کا اہتمام نہ وقت کی پابندی ،عشا تک دن بھر کی رہ جانے والی نمازوں کو پورا کر لیتے۔پھر آہستہ آہستہ اللہ کی مدد ہوتی گئی اور ہم جماعت اور وقت کی پابندی بھی کرنے لگے۔اللہ کا کرم ہے جہاں اپنے غیر مسلم ساتھیوں کی ایک نہیں چلنے دیتے وہیں مسلمانوں، نام نہاد مولویوں اور مبلغین کو بھی نہیں بخشتے اور یہ سب کج بحثی سے نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ کرتے ہیں۔ غیر مسلم دوستوں کو کھلم کھلا تنقید کا نشانہ بنا لیتے ہیں لیکن نام نہاد واعظوں،ذاکروں کو منہ پر نہیں ٹوکتے کیونکہ ان کے ساتھ جاہلوں کا ٹولہ ہوتا ہے جو کفر کا فتویٰ یا توہین اسلام یا رسالت کا الزام لگاتے دیر نہیں کرتے تو اس لیئے ہم ان سے تیسرے درجہ کا جہاد (یعنی دل میں براکہنا ) روا رکھتے۔ لیکن پھر اللہ نے دوسرے درجہ کا جہاد کرنے کی توفیق دی۔اور یہ ہی عام آدمی کے لیئے مناسب ہے کیوں کہ پہلے درجہ کا جہاد حکمرانوں کے لیئے ہے جو طاقت سے کام لے سکتے ہیں۔ دوسرے درجہ میں زبان سے روکنا ، ٹوکنا، تنقید کرنا ہوتا ہے لیکن ہم زبان نہیں قلم سے کام لیتے ہوئے کالم ، مضامین یا انٹرنیٹ پر پوسٹس لکھ دیتے ہیں۔اس میں بھی مشکل یہ ہے کہ اخبارات کچھ کالم شائع نہیں کرتے حالانکہ ہمارے کالمز سے ان کے متفق نہ ہو نے کا استحقاق ان کے ہی پاس محفوظ ہوتا ہے۔لیکن وہ یا تو شائع نہیں کرتے یا اس طرح کاٹ چھانٹ کرتے ہیں کہ کالم شائع ہو کر بھی ضائع ہو جاتا ہے۔اس لیئے ہم نے کالم لکھنے کی بجائے اپنے خیالات فیس بک پر پیش کرنا شروع کر دیئے لیکن وہاں بھی مشکلات ہیں۔ مثلاً پوسٹ پر غیر متعلقہ (irelevant)کمیٹس۔یا کمیینٹ برائے کمینٹ یا بغیر پڑھے لائک (Like) کرنا۔پچھلے دنوں کچھ پوسٹس میںمولویوں کی پیش کردہ جھوٹی اور عقل سے بعید کہانیوں ، حکایتوںاورروائیتوں کا پوسٹ مارٹم کیا تو کچھ نے سراہا، کچھ نے فرقہ واریت کی عینک سے دیکھ کر اعتراض کیا۔کچھ نے مشورہ دیا کہ ایسی باتوں کو نہ لکھیں کیونکہ غلط باتوں کی تشہیر ہوتی ہے۔یہ ان کا موقف ہے لیکن ہمارا موقف ہے ایسی جھوٹی حکایتوں اور ایسے نام نہاد مولویوں کو ایکسپوزکرنا ہم سب کا فرض ہے ورنہ کم علم لوگ بہکاوے میں آسکتے ہیں۔اماموں کے نام پر بٹنے والوں کے علاوہ اہل حدیث اور اہل سنت ، مقلد و غیر مقلد تو ہیں ہی لیکن بھارت اورپاکستان میں دومدروسوں نے بھی یہ کام اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ اس لیئے یہ لوگ مدلل باتوں کو بھی اپنی اپنی عنک کے سہارے مخالفت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ آزمانے کے لیئے کوئی حکایت کسی فرقے کے عالم کے حوالے سے لکھ کر دیکھ لیجئے۔پھر موافقت اور مخالف میں کمینٹس دیکھئے۔کچھ دنوں بعد اس ہی حکایت کو دوسرے فرقے کے کسی عالم سے منسوب کر دیجیئے پھر دیکھیئے مخالفت اور مواقفت ایسے تبدیل ہوتی ہیں جیسے ہاکی اور فٹ بال میں ہاف ٹائم کے بعد سایڈز اور لطیفہ یہ ہے اس پر سب متفق ہیں کہ اسلام میں فرقہ واریت کی ممانعت ہے۔تمہید اور وضاحتیں کچھ زیادہ طویل ہوگئی اس لیئے موضوع پر لوٹتے ہوئے بتائیں کہ ہم پانچ وقتوں کے علاوہ کوئی اورنماز مثلاً تہجد یا اشراق نہیں پڑھتے تھے۔طریقہ یہ تھا کہ فجر کے بعد تیار ہو کر دفتر چلے جاتے۔۔ریٹائر ہوئے تو نماز فجر کے بعد کالم نویسی کرنے لگے۔۔پھر بوجہ کالم لکھنے بند کیئے تو فجر کے بعد سونے لگے۔۔چند ہفتے پہلے ایک وڈیو نظروں سے گذری جس میں مولانا فرما رہے تھے کہ فجر کے بعد سونا نہیں چاہیے بلکہ تقریباً ایک گھنٹے بعد اشراق کی نماز ادا کرنا چاہیئے۔اپنی بات میں زور ڈالنے کے لیئے بتایاکہ ایک دن حضو ر ﷺ نماز فجر کے بعد بی بی فاطمہؓ کے گھر گئے تو دیکھا آپؓ سو رہی ہیں۔۔ حضور ﷺنے غصے میں پیروں سے انہیں جگایا اور ناراضی کا اظہار کیا کہ فجر کے بعد اس طرح نہیں سونا چاہیئے ہم نے اس دن کے بعد یہ طریقہ اپنا لیا اور فجر کی نماز کے بعد اشراق پرھ کر سوتے ہیں لیکن ان مولانا کی اس بات پر یقین نہیں کہ آپ ﷺ نے پیر مار کر بی بی ؓ کو جگایا ہو گا۔دوسرا اعتراض یہ ہے کہ آپ ؑ کا فرمان ہے کہ اپنے گھر میں بھی دستک دیئے بنا داخل نہ ہوتو آپ ؑ کیسے بغیر آواز دیئے بیٹی کے گھر میں داخل ہو سکتے تھے۔بہر حال ایک مولانا کی غلط وڈیو سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہم اشراق پڑھنے لگے ہیں لیکن ان مولانا کی دوسری بات سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔اس ہی لیئے کہتے ہیں؎ نقاب شب میں جمال سحر تلاش کریں