سانحہ پشاور کے فوراً بعد جہاں تمام سیاسی رہنما ایک میز پر اکھٹے ہوئے وہاں عسکری اور حکومتی سطح پر دہشت گردی کیخلاف اقدامات بھی تیز ہوگئے ہیں۔ کورکمانڈرز کا اجلاس ہویا آل پارٹیز کانفرنس دونوں اہم فورموں نے جو 20 نکاتی ایجنڈا اور 46 تجاویز دیں ان میں دہشتگردی کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کا قبلہ درست کرنے کا نکتہ بھی شامل ہے۔
دہشتگردی کی کئی اقسام اور کئی پہلو ہیں۔ اس کے فروغ میں صرف میڈیا کو ذمہ دارقرار دینا بھی سراسر ناانصافی اور زیادتی ہے۔ ایسا کرنے سے اصلاح اور علاج کی بجائے مزید شعور اور بگاڑ کا خدشہ زیادہ ہے۔ مثلاً ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ جو میڈیا کے محاذ پر خاصا فعال ہے اس قبیلے کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دہشت گردوں کو ہمارا میڈیا گلیمرائزڈ کرکے پیش کرتا رہا ہے جس سے دہشتگردی کے رجحانات میں اضافہ ہواہے۔ اس سے ہمارے میڈیا کو قطعاً پرہیز کرنا چاہیے یہ طبقہ اسی ایک سانس میں یہ بھی فرماتا ہے کہ ہمیں ہر خبر اور پروگرام میں توازن اور معروضیت (Balance and Objectivity)کا پہلو بھی برقرار رکھنا چاہیے۔ ہمارے میڈیا میں اس حوالے سے اخلاقیات اور قوانین کی بحث ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے۔ ان موضوعات کے اس طالب علم سے بھی ایک محفل میں پوچھا گیا کہ ہمارے حکمران طبقے میڈیا کو اس وقت جیسے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں کیا اس طرح کر پائیں گے؟ سیدھا سا جواب تو یہی تھا کہ میڈیا کا جِن اب بوتل سے اتنا باہر آ چکا ہے اسے مختلف حیلوں بہانوں، دھمکیوں اور دباﺅ سے واپس بھیجنا ناممکن نظرآتا ہے۔ ایمرجنسی نافذ کرکے یہ کام کیا تو جاسکتا ہے لیکن بعد میں اس کے منفی اثرات و نتائج کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لہذا یہ حل بھی ممکن اور پائیدار نہیں ہے۔
دہشتگردی کی میڈیا کوریج یوں تو دہشتگردی کے واقعات سے پوری طرح جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ 16دسمبر 2014ءکو پشاور کے آرمی پبلک سکول کے سانحے کی کوریج میں تقریبا تمام ذرائع ابلاغ (پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا) نے خاصی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ سانحہ پشاور میں معصوم بچوں اور اساتذہ کی شہادتوں کا عنصر بہت دل ہلا دینے والا تھا اس لئے ذرائع ابلاغ نے ازخود زیادہ صحافتی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ کوئی اینکر یا رپورٹر بہت کم اپنے طور پر سٹینڈ لیتا ہے پرنٹ میڈیا میں پالیسی اور الفاظ کو چیک کرنیوالا ”گیٹ کیپر“ کا ادارہ کسی حدتک کام کرتا نظر آتا ہے۔ اسی لئے حرف مطبوعہ (Printed Word)کوئی زیادہ انتہا پسندی کو فروغ دیتا نہیں لگتا۔ یہاں بات صرف مین سٹریم پرنٹ میڈیا کی ہور ہی ہے۔ علاقائی یا انتہا پسند گروپوں کے اخبارات ورسائل کی نہیں ہو رہی، کیونکہ ایک طرف ان گروپوں کے اپنے ترجمان اخبارات و رسائل اور دوسری طرف غیر سرکاری تنظیموں کے اپنے ترجمان نیوز بلیٹن بھی شائع ہوتے ہیں جن میں ایک دوسرے کیخلاف سخت ترین الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ان دونوں متحارب طبقوں کو ذمہ داری کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔
ایک اہم مسئلہ دہشتگرد کارروائیوں کی براہ راست Live کوریج یا اینی میشن Animation کے ذریعے کوریج کا ہے۔ اس سے افواہ ساز فیکٹریاں تیز ہو جاتی ہیں، جو اعصابی اور نفسیاتی جنگ میں زیادہ خطرناک اور نقصان دہ کردار ادا کرتی ہیں لہذا حقائق اور اعداو شمار کو جتنا مختصر اور معروضی انداز میں دیا جائے اتنا ہی بہتر ثابت ہوتا ہے۔ کسی قسم کی بھی رنگ آمیزی یا خواہش کو خبر بنانے کی حرکت زیادہ دیر تک چھپی نہیں رہتی۔
پرنٹ اور الیکٹرانک یعنی روائتی میڈیا کو ذمہ داریاں اپنی جگہ ، گذشتہ دہائی میں غیر روائتی میڈیا یعنی سوشل میڈیا ان دونوں سے بازی لے گیا ہے۔ اس پر چلنے والی کوئی بھی خبر، فوٹیج یا ویڈیو کلپ کی کوئی بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتا کوئی ذریعہ ظاہر کرنے کی کوئی پابندی نہیں، کوئی ضابطہ اخلاق نہیں اس لئے آن لائن حوالہ جات کو معیاری تحقیق کی دنیا میں سب سے کمزور سمجھا جاتا ہے۔ بیشتر لوگ اپنا بلاگ بناکر بیٹھے ہیں۔ اپنے مطلب کا یکطرفہ اور متعصبانہ مواد اس پہ اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔
دہشتگردی کی کوریج ایک خاص قسم کی صحافتی ذمہ داری کا تقاضا ہر قدم پر کرتی ہے۔ اسکی بنیادی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے مقتدر ادارے تو ابھی ”دہشتگردی“ کی ایک مکمل اور جامع تعریف ہی نہیں کر پائے کیونکہ ہمارے وطن عزیز میں دہشتگردی کی کئی اقسام ہیں۔ صرف مذہبی یا مسلکی وجوہات کی بنا پر دہشت گردی کے واقعات رونما نہیں ہوتے ذات برادری، لسانی، علاقائی اور دیگر کئی وجوہات بھی پس پردہ کارفرما ہوتی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی) نے اپنی گہری تحقیقاتی کتاب ”سانحہ ستمبر اور نیا عالمی نظام (9/11And New World Order) میں عالمی دہشتگردی کی جڑیں 1925ءمیں واک فیلر کی طرف سے لاکھوں ڈالر تقسیم کرنے کی سازش میں ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے (صفحہ14) انہوں نے دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے ڈانڈے بیسویں صدی کے آغاز میں عالمی سازشی تحریکوں مثلاً فری میسن وغیرہ سے باقاعدہ حوالہ جات کیساتھ ثابت کئے ہیں۔ ہمارے مقتدر ادارے اصل سر چشمے اور جڑ سے اسے ختم کرنے کی بجائے صرف ایک پہلو یا صرف ایک چھوٹے سے حصے کا علاج کرنے کی چارہ جوئی کرتی ہیں۔ اور وہ علاج بھی اتنا یکطرفہ نامکمل اور پروپیگنڈہ پر مشتمل ہوتا ہے کہ تھوڑے عرصے یہ روگ پھر ایک نئی صورت میں نمودار ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھی یوں لگتا ہے کہ طبقے صرف میڈیا کو یکطرفہ استعمال کرکے محض پروپیگنڈے کی بنیاد پر اس روگ کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی مخصوص خواہشوں کے تحت میڈیا کو استعمال کرنے سے سچائی، ثقافت اور معروضیت کے اصول متاثر ہوتے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کو اخلاقیات کے اصولوں کی طرف توجہ دلائی جائے میڈیا کو بھی سکرین یا مائیک پر لانے سے قبل یا کوئی تحریر شائع کرنے سے قبل کامل ذمہ داری کا فلٹر لگا لینا چاہیے امید ہے کہ اس مسلسل عمل سے صورتحال میں بہتری پیدا ہو جائے گی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024