رائے منصب علی خاں مرحوم پنج احاطہ ضلع ننکانہ صاحب میں 1938 میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے آپ نے بنیادی تعلیم ضلع شیخوپورہ اور ایل ایل بی پنجاب یونیورسٹی سے کیا اور پیشہ وکالت سے منسلک ہو گئے اور 1962ء میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور بعد ازاں چار دفعہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر بھی رہے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کنونشن مسلم لیگ سے کیا اور آپ سابق وزیراعظم محمد خاں جونیجو، ملک محمد قاسم، صاحبزادی محمودہ بیگم اور میاں محمد یسین خاں وٹو کے قریب ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اگرچہ یہ تمام با کردار سیاست دان جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں ان کی شرافت اور ایمانداری کی مثالیں سیاست کے ایوانوں میں گونجتی ہیں پاکستانی سیاست میں ایک کونسلر بھی اپنی ہیت تبدیل کر لیتا ہے لیکن رائے منصب علی خاں ہمیشہ عاجزی اور انکساری کے زیور سے آراستہ رہے سیاست کے ساتھ ساتھ آپ کی طبعیت ادبی ذوق سے لبریز تھی ادب کی دنیا میں آپ کے نثری اور شعری مجموعہ ’’احوالِ چمن‘‘ کو بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے سرورق پر ایک شعر جس کو اکثر دوستوں کو سنایا کرتے تھے:۔
کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
’’احوال چمن کے حرف چند میں آپکے دیرینہ دوست شوکت علی شاہ رقم طراز ہیں کہ رائے منصب صاحب ایک محب وطن اور کٹر مسلم لیگی ہیں اور جب بھی انہیں حکمرانوں کی روش میں کوئی جھول نظر آیا تو انہوں نے مصلحت کوشی سے کام نہیں لیا۔ ان کی سوچ میں گہرائی بھی ہے اور ادبی چاشنی ہے ہے‘‘
رائے منصب علی خاں کا اوڑنا بچھونا ہمیشہ مسلم لیگ ہی رہی۔ آپ نے ہزاروں اختلافات کے باوجود کبھی اپنی پارٹی سے بے وفائی کا نہ سوچا اور نہ ہی کسی فارورڈ گروپ کا حصہ رہے۔ آپ چیف ایڈیٹر نوائے وقت مرحوم مجید نظامی صاحب کی باکردار صحافتی زندگی اور محب وطن پالیسیوں کے معترف تھے اور نوائے وقت کے قاری اور کالم نگار تھے آپ کا پہلا کالم بعنوان ’’صدر ایوب اور کنونشن مسلم لیگ‘‘ کے عنوان سے 1963 میں نوائے وقت میں شائع ہوا۔رائے منصب علی خاں کی وفات کے بعد اگرچہ ملکی سیاست میں بھی گہرا خلا پیدا ہو گیا ہے اسکے ساتھ ساتھ اپنے حلقہ اور اپنی کھرل برادری میں اُن کا سیاسی جانشین بظاہر نظر نہیں آرہا آپ نے پسماندگان میں تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ اگرچہ اپنی زندگی میں انکو سیاست میں آنے کی اجازت نہ دی لیکن وہ اعلیٰ تعلیم یا فتہ اور سیاسی بصیرت کی مالک ہیں وہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چل کر اس خلا کو آسانی سے پر کر سکتی ہیں لیکن یہ آنیوالا وقت ہی بتائے گا کہ حالات کس طرف کروٹ لیتے ہیں آپ ماہ ربیع الاول میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے، لیکن اپنی انمٹ یادیں چھوڑ گئے لیکن انکے یہ اشعار ان کی ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے۔…؎
کانپ جاتا ہوں سر بزم چراغوں کی طرح
موت آئے گی کوئی لے کے بہانہ یارو
پھر نہ بزم نہ باتیں یہ ہماری ہوں گی
بھول جائے گا ہمیں سار ا زمانہ یارو
اب ہجر کا اک لمحہ مشکل ہے بسر کرنا
لگتا ہے جدا ہوں کتنے ہی ز مانوں سے
ڈھونڈ کے لائیے منصب کو یہاں
بزم کی روح رواں ہے یارو
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024