آج 24 جنوری جمعرات صبح صبح غیر متوقع طور پر عجیب حالات میں حبیب جالب کی بھولی بسری یادیں اچانک تازہ ہو گئیں ۔ہوا یوں کہ شدید سردی اور برفانی ہواﺅں کے باعث لاہور کے دیگر شہریوں کی طرح راقم بھی موسم کی زد میں آکر چند ضروری ادویات لیکر ایک کیمسٹ کی دوکان سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا کہ ایک نوجوان نے بڑھ کر مجھے پہنچانتے ہوئے پر خلوص انداز میں سلام کرتے ہوئے میری خیریت دریافت کی میں نے نوجوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے معذرت کی کہ میں سردی اور دھند میں انہیں پہنچان نہیں سکاجس پر وہ بولا کہ برسوں کے بعد یہ ملاقات ہوئی ہے ۔ اپنا تعارف کرواتے ہوئے بولا " میرا نام یاسر عباس ہے میں آپ کے دیرنہ دوست حبیب جالب کا بیٹا ہوں " جذبات کے امڈھتے ہوئے طوفان میں میں نے یاسر عباس کو گلے لگایا اور اس کی والدہ ممتاز بیگم کے علاوہ دیگر بھائی بہنوں کا حال احوال اور خیریت دریافت کی اس نے بتایا کہ اس کی والدہ اُسی کے ساتھ 56 قیوم بلاک مصطفی ٹاﺅن میں رہتی ہیں ۔ ان کی صحت اچھی نہیں رہتی بلکہ اکثر و بیشتر وقت و ہ اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنے کی جدوجہد میں گذارتی ہیں اور اپنے عظیم باپ کہ راہنما اصولوں پر ثابت قدم رہنے کیلئے ایک جہد مسلسل کا شکار ہے ۔ ایک انتہائی خوددار بااصول اور بہادر باپ کا بیٹا اپنے سینے کے اندر اٹھتا ہوا G a h t e r i n g S t o r m اور پلکوں کے پیچھے چھلکتے آنسوﺅں کو اپنے رخسار پر ڈھلکنے سے کامیابی کے ساتھ قابو پاتے ہوئے یاسر عباس مسکراتے ہوئے بولا بڑی بہن لےلا کی شادی ہو چکی ہے اور وہ اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ فیصل آباد میں رہتی ہے اس سے چھوٹی طاہرہ 35 سال کی ہو گئی ہے اور اس سے چھوٹی حجاب فاطمہ بھی ماشاءاللہ اٹھائیسویں سال میں ہے۔ جب اللہ کو منظور ہو گا۔ ان کے اپنے گھر بھی آباد ہو جائیں گے۔ فی الحال تو امی کے ساتھ میرے پاس ہی رہتی ہیں۔ اس کے لبوں پر کوئی حرف شکایات نہ تھا لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے گریز کر رہا تھا اور اس کی نگاہیں میرے ادب کے باعث زمین پر گڑی ہوئی تھیں ۔ حبیب جالب کے اس خدار بیٹے کا اپنے دکھ درد سے گریز کا انداز گفت گو اپنے پر معنی خاموشی میں ایک ایسی داستان بیان کر رہا تھا جس نے میرے دل و دماغ میں حبیب جالب اور علامہ اقبال کا یہ شعر تازہ کر دیا ۔
تیرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
حبیب جالب کی پوری زندگی فقیری میں گذری اور اس کی خودی کا یہ عالم تھا کہ حکمرانوں کے تختہ و تاج اس کی تیز دھاری تلوار کی تاب نہ لا کر لرزاں و خیزاں رہتے تھے ۔ شہید بینظیر بھٹو کے بارے میں حبیب جالب کے ان چند لفظوں نے پوری فوج اور اُس کے سپہ سالار جنرل ضیاءالحق کی نیندیں حرام کر کے پوری قوم کو ایک ولولہ تازہ عطاءکیا تھا ۔
©" ڈرتے ہیں یہ وردی والے ایک نہتی لڑکی سے "
میں بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے ظاہری بذادری کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا رہا اور گفت گو جاری رکھتے ہوئے پوچھا کہ " تم نے شادی کی ہے یا نہیں گھر بار چلانے کیلئے مجھے یاد پڑتا ہے کہ حکومت نے تمہاری والدہ کیلئے وظیفہ کی اس وقت کے مطابق معقول ماہواری رقم مقرر کی تھی شہید بینظیر بھٹو جب دوسری بار وزیر اعظم بنی تو وہ آپ کے پرانے گھر میں بھی آپ کی والدہ ممتاز بیگم کو ملنے آئی تھیں۔ میں بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھا غالباً یہ 1994 کی بات ہے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے نکئی صاحب اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور آپ کو اپنا مکان تعمیر کرنے کیلئے ایک کینال کا پلاٹ بھی الاٹ کیا گیا تھا جبکہ آپ نے صرف 10 مرلہ میں اپنا گھر بنایا امید ہے آپ سب اس گھر میں خوش ہیں "جس پر یاسر عباس کہنے لگا ©©" کرنل صاحب آپ سے کونسی بات چھپی ہے والد صاحب کی زندگی میں ہم سب غریبی میں بھی خوش تھے ہر طرف سے عزت ملتی تھی والد صاحب کے بعد ہماری زندگی کی وحال خزاں میں تبدیل ہوگی بی بی شہید کے وزیر اعظم بننے سے کچھ سکھ کا سانس لیا اور ہمارا 25 ہزار روپے ماہوار کا وظیفہ مقرر ہوا جو خادم اعلیٰ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی غریب پروری سے جب کبھی حکومت پنجاب کو حبیب جالب کی یاد آجائے تو ان کو بیوہ کو یہ رقم مل جاتی ہے لیکن ناجانے کیوں وہ پھر کئی مہینے ہم کو بھول جاتے ہیں اور یاد دہانی کیلئے افسران کے چکر لگانے پڑتے ہیں" ۔ اس موقع پر مجھے برادرم محترم ڈاکٹر اجمل نیازی یاد آئے جو حکمرانوں بیوروکریسی ©طبقہ کو افسران تہہ و بالاکے لقب سے یاد کرتے ہیں کیونکہ ان کی ایسی کاروائیوں سے حبیب جالب کے پورے خاندان کی زندگی کو تہہ وبالا کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں جو کوئی بھی متعلقہ عہددار حکومت پنجاب اس رقم کی ادائیگی کے ذمہ دار ہیں و ہ اس بارے میں ممتاز بیگم زوجہ محترمہ شاعر انقلاب حبیب جالب کی اہلیہ سے 56 قیوم بلاک مصطفی ٹاﺅن لاہور رابطہ کر کے اصلاح احوال کریں ورنہ مجھے درد دل رکھنے والے اور مشاہرِ قوم کہ اہل خانہ کی عزت و احترام اور دیکھ بھال میں کو ئی دقیقہ فراگذاشت نہ کرنے والے اپنے دوست اور کرم فرما سیکرٹری اطلاعات حکومت پنجاب محی الدین وانی کی توجہ اس طر ف مبذول کروانی پڑے گی کیو نکہ ایسی خدمت کیلئے وہی خادم اعلیٰ پنجاب کے نامزد نمائندہ ہیں۔
اس موقع پر راقم چونکہ شعبہ ذرائع ابلاغ سے متعلق ہے یہ ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حبیب جالب کے اہل خانہ کی خدمت کی سعادت حاصل کرنے میں گورنر پنجاب الطاف چودھری چیف منسٹر عارف نکئی کے علاوہ کشور ناہید‘ نثار عثمانی اور مصطفی قریشی نے نہایت قابل تعریف کردار ادا کیا اور اپنی کاوشوں سے ایک کنال پلاٹ کی قیمت انہیں کی توجہ اور کوشش سے ادا ہوئی ورنہ ممتاز بیگم جو اپنے خاوند کے ساتھ بڑے فخر اور خوشی سے فقرانہ زندگی میں شہنشاہی کرتی تھیں اتنی رقم کہاں سے لاتیں اور پھر مکان تعمیر کرنے کا تو خرچہ برداشت کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا چنانچہ الاٹ شدہ ایک کنال کے پلاٹ سے دس مرلہ زمین بیچ کر باقی مانندہ دس مرلہ پر حاصل کردہ رقم سے گھر تعمیر کر لیا۔ ممتاز بیگم کی عمر اب 72 برس سے اوپر کی ہے ان کی H i p-B o n e کے آپریشن کے بعد صحت گرتی جارہی ہے اور بلڈ پریشر و بڑھاپے سے پیدہ شدہ امراض کے باعث علاج معالجہ ایک متواتر طویل درد سر کا چیلنج بن چکا ہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی ذرہ سی نگاہ شفقت سے وہ شاعر انقلاب حبیب جالب کی روح کے ایصال ثواب کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024