عزیز آزاد.... گذشتہ سے پیوستہ
سیاست ایک سرکس اور بھیڑ چال کی شکل اختیارکئے ہوئے ہے۔ پہلے ریاست اور سیاست خدمت اور عزت کے لئے اختیارکی جاتی تھی اب تجارت اور لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ ہے جو ملک غریبوں کیلئے معرض وجود میں آیا تھا اسے اس کے جاگیر دار سرمایہ دار کارخانہ دار بیوروکریٹ جرنیل اور جج مل جل کر نوچنے کاٹنے کھانے اور ختم کرنے کے درپے ہیں حالت یہ ہے کہ حزب اختلاف لوٹ کھسوٹ میں اتفاق کا عملی ثبوت پیش کر رہی ہے اس ریاست کا کیا حشر ہوگا جہاں حزب اختلاف سسٹم بچانے کے نام پر عوام کو بھوکے مرنے کیلئے چوروں ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے ۔ ان کی بدنیتی کے باعث ہر شے گھٹتی اور اڑتی جارہی ہے جہاں لاقانونیت اپنے عروج پر ہو ۔ اغوا برائے تاوان کاروبار کی شکل اختیار کر جائے ، تھانہ نیلام ہو ، انتظامیہ ناکام ہو ، مہنگائی عام ہو۔ تین سالوں میں مہنگائی کا اندازہ لگائیے آٹا 13 سے 35 روپے ، گھی 90 سے 180 روپے ، پیاز 8,10 سے 80 روپے ، لہسن 35 سے 220 روپے ، چینی 21 سے 125 روپے ، چاول 35 سے 135روپے ، دال مونگ 35 سے 148 روپے ، ہلدی 60 روپے سے 340 روپے ، لال مرچ 60 سے 240 روپے ، دودھ 30 روپے سے 60 روپے ،پیٹرول 54 سے 80 روپے اور امریکن ڈالر 60 سے تجاوز کرکے 87 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پیاز اور اچار سے روٹی غربت سے نچلے درجے کے لوگ کھاتے تھے اب عیاشی سمجھاجاتا ہے یہ تمام اشیاء ہمارے اشرافیہ کے قبضہ قدرت میں ہیں ان کی قیمتوں کا اتار چڑھائو انہی کی منشاء کے مطابق رہتا ہے ۔ سالانہ کرپشن کا تخمینہ ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے ۔ ریلوے ، پی آئی اے ، یوٹیلٹی سٹورز ، پیپکو ، ٹی سی پی ، سٹیل ملزمیں کھربوں کا خسارا ۔یہ خیراتی ادارے نہیں ریاست کے ستون ، منافع بخش اور کمائو ادارے ہیں ۔ یہ رقم کون ہضم کر گیا ؟ 2009 کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق وزارتوں میں سات ارب روپے کی بے ضابطگیاں۔9 اپریل کے نوائے وقت کے مطابق پانچ پاور پروجیکٹ میں پانچ سو ستاون ملین ڈالرز کا نقصان 29 مارچ نوائے وقت گیس کے ٹھیکوں میں ایک ارب کا نقصان ، بینک آف پنجاب نو ارب سے پچاس ارب تک کے فراڈ کا الزام ، نیشنل ہائی وے سے اڑتیس ارب روپے کا خزانے کی دستاویز میں کوئی ریکارڈ نہیں۔ ہر سال اکیس ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے ان چوریوں گھپلوں کا سارا بوجھ مہنگائی کی صورت میں عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ بینکوں کی استحصالی پالیسیوں کرپشن ٹیکس چوری اورسٹے بازی کی معیشت سے گذشتہ دس سالوں میں تقریبا دس ہزار ارب روپیہ غریب اور متوسط طبقے کے سرکل سے نکل کر مال دار لوگوں کی جانب منتقل ہوئے۔ ستم بالائے ستم کہ اس رقم کا بڑا حصہ ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ سال 2010ء میں ملکی زرعی پیداوارکا حجم تین سو چھ ارب روپے تھا مگر زرعی انکم ٹیکس کی مد میں دو ارب بھی جمع نہ ہو سکا۔ گذشتہ چونتیس مہینوں میں معیشت کی اوسط شرح ملکی تاریخ میں سب سے کم رہی۔ انسانی وسائل کی ترقی جس میں دنیا کے ایک سو بیاسی ممالک میں سے ہمارا نمبر 142ہے جبکہ غربت میں 101 ہے چین کاگروتھ ریٹ 11%، بھارت کا 9% اور ہمارا دو فیصد کے قریب ہے۔ ایک سروے کے مطابق ملک کے اسی فیصد لوگوں کو اپنے سیاسی لیڈروں حکمرانوں جرنیلوں بیوروکریٹوں سے بھلائی کی کوئی امید نہیں۔ اس مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں ایک مسیحا کی تلاش ہے جو بے جا ٹیکسوں کے کوڑوں اور مہنگائی کے ہتھوڑوں سے نجات دلائے۔ کون ہے جو بدنیت اور گمراہ اشرافیہ کے پہاڑوں جیسے گناہوں پر عذاب الٰہی بن کر نازل ہو ۔ کون ہے جو اقبال اور محمد علی جناح کی قوم کو اقربا پروری ، منافع خوری ، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کی دلدل سے باہر نکالے۔ کون ہے جو قرضوں کی بے غیرتی ، اغیار کی غلامی والی اشرافیہ کے مقابلے میں قوم کے لئے خودانحصاری ، وقار اور خوداری کا علم بلند کرے صبر کا پیمانہ چھلکنے کو ہے ۔
سیاست ایک سرکس اور بھیڑ چال کی شکل اختیارکئے ہوئے ہے۔ پہلے ریاست اور سیاست خدمت اور عزت کے لئے اختیارکی جاتی تھی اب تجارت اور لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ ہے جو ملک غریبوں کیلئے معرض وجود میں آیا تھا اسے اس کے جاگیر دار سرمایہ دار کارخانہ دار بیوروکریٹ جرنیل اور جج مل جل کر نوچنے کاٹنے کھانے اور ختم کرنے کے درپے ہیں حالت یہ ہے کہ حزب اختلاف لوٹ کھسوٹ میں اتفاق کا عملی ثبوت پیش کر رہی ہے اس ریاست کا کیا حشر ہوگا جہاں حزب اختلاف سسٹم بچانے کے نام پر عوام کو بھوکے مرنے کیلئے چوروں ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے ۔ ان کی بدنیتی کے باعث ہر شے گھٹتی اور اڑتی جارہی ہے جہاں لاقانونیت اپنے عروج پر ہو ۔ اغوا برائے تاوان کاروبار کی شکل اختیار کر جائے ، تھانہ نیلام ہو ، انتظامیہ ناکام ہو ، مہنگائی عام ہو۔ تین سالوں میں مہنگائی کا اندازہ لگائیے آٹا 13 سے 35 روپے ، گھی 90 سے 180 روپے ، پیاز 8,10 سے 80 روپے ، لہسن 35 سے 220 روپے ، چینی 21 سے 125 روپے ، چاول 35 سے 135روپے ، دال مونگ 35 سے 148 روپے ، ہلدی 60 روپے سے 340 روپے ، لال مرچ 60 سے 240 روپے ، دودھ 30 روپے سے 60 روپے ،پیٹرول 54 سے 80 روپے اور امریکن ڈالر 60 سے تجاوز کرکے 87 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پیاز اور اچار سے روٹی غربت سے نچلے درجے کے لوگ کھاتے تھے اب عیاشی سمجھاجاتا ہے یہ تمام اشیاء ہمارے اشرافیہ کے قبضہ قدرت میں ہیں ان کی قیمتوں کا اتار چڑھائو انہی کی منشاء کے مطابق رہتا ہے ۔ سالانہ کرپشن کا تخمینہ ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے ۔ ریلوے ، پی آئی اے ، یوٹیلٹی سٹورز ، پیپکو ، ٹی سی پی ، سٹیل ملزمیں کھربوں کا خسارا ۔یہ خیراتی ادارے نہیں ریاست کے ستون ، منافع بخش اور کمائو ادارے ہیں ۔ یہ رقم کون ہضم کر گیا ؟ 2009 کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق وزارتوں میں سات ارب روپے کی بے ضابطگیاں۔9 اپریل کے نوائے وقت کے مطابق پانچ پاور پروجیکٹ میں پانچ سو ستاون ملین ڈالرز کا نقصان 29 مارچ نوائے وقت گیس کے ٹھیکوں میں ایک ارب کا نقصان ، بینک آف پنجاب نو ارب سے پچاس ارب تک کے فراڈ کا الزام ، نیشنل ہائی وے سے اڑتیس ارب روپے کا خزانے کی دستاویز میں کوئی ریکارڈ نہیں۔ ہر سال اکیس ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے ان چوریوں گھپلوں کا سارا بوجھ مہنگائی کی صورت میں عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ بینکوں کی استحصالی پالیسیوں کرپشن ٹیکس چوری اورسٹے بازی کی معیشت سے گذشتہ دس سالوں میں تقریبا دس ہزار ارب روپیہ غریب اور متوسط طبقے کے سرکل سے نکل کر مال دار لوگوں کی جانب منتقل ہوئے۔ ستم بالائے ستم کہ اس رقم کا بڑا حصہ ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ سال 2010ء میں ملکی زرعی پیداوارکا حجم تین سو چھ ارب روپے تھا مگر زرعی انکم ٹیکس کی مد میں دو ارب بھی جمع نہ ہو سکا۔ گذشتہ چونتیس مہینوں میں معیشت کی اوسط شرح ملکی تاریخ میں سب سے کم رہی۔ انسانی وسائل کی ترقی جس میں دنیا کے ایک سو بیاسی ممالک میں سے ہمارا نمبر 142ہے جبکہ غربت میں 101 ہے چین کاگروتھ ریٹ 11%، بھارت کا 9% اور ہمارا دو فیصد کے قریب ہے۔ ایک سروے کے مطابق ملک کے اسی فیصد لوگوں کو اپنے سیاسی لیڈروں حکمرانوں جرنیلوں بیوروکریٹوں سے بھلائی کی کوئی امید نہیں۔ اس مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں ایک مسیحا کی تلاش ہے جو بے جا ٹیکسوں کے کوڑوں اور مہنگائی کے ہتھوڑوں سے نجات دلائے۔ کون ہے جو بدنیت اور گمراہ اشرافیہ کے پہاڑوں جیسے گناہوں پر عذاب الٰہی بن کر نازل ہو ۔ کون ہے جو اقبال اور محمد علی جناح کی قوم کو اقربا پروری ، منافع خوری ، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کی دلدل سے باہر نکالے۔ کون ہے جو قرضوں کی بے غیرتی ، اغیار کی غلامی والی اشرافیہ کے مقابلے میں قوم کے لئے خودانحصاری ، وقار اور خوداری کا علم بلند کرے صبر کا پیمانہ چھلکنے کو ہے ۔