ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
سابق وزیراعظم اعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی وجہ شہرت ان کے بیانات ہیں ۔ومحیر ا لعقل بیانات دینے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ عجیب و غریب حیران کن اور ہنسی پھٹو ل والے بیانات میں سب سے زیاد ہ سبقت لے جانے سابق وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے جس کی وجہ سے گھمبیر ترین حالات کے باوجود قوم کا ”ہا نساہ“ نکل جاتا تھا ۔مثلاً سکون صرف قبر میں ملے گا ۔چین اور فرانس کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ پاکستان میں سونے اور تیل کے ذخائر برآمد ہو گئے ہیں۔ جرمنی کا بارڈر جاپان کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں 12 موسم ہے۔ میں عالم اسلام کا واحد لیڈر ہوں جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑا ہے۔ ہم نے 2018 میں تین ارب پودے لگا کر فضائی آلودگی کا خاتمہ کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ ان دو عظیم لیڈروں کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی یہ اعزاز حا صل ہے کہ اُن کے بیانات سن کر لوگ کافی دیرتک (surprise) رہتے ہیں۔ اگر اس سے پہلے کچھ اور سربراہان میں یہ خوبیاں تلاش کریں تو تین کے نام فل الفور ذین میں آ جائیں گے۔ یعنی صدام حسین ، کرنل قذافی اور یاسر عرفات جنہوں نے اپنے ملک تباہ کر ڈالے اور ایسی ایسی بھڑکیں لگائیں کہ پوری قوم سکتے میں آگئی۔ تینوں ملک آج تک صدمے میں ہیں۔ اگر اس لسٹ میں ریسرچ کریں تو آج کوئی درجن بھر اس ایسے سربراہان کی فہرست تیار کی جا سکتی ہے جو اپنی جناب میں” چھو ڑو“ کہلائیں گے اور انہوں نے ایسی ایسی بھڑکیں لگائیں ہیں ۔قوم کو ایسے ایسے چونے لگائے ہیں جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ ان میں زیادہ تر مسلم حکمرانوں کے نام سے سر فہرست ہیںمثلاً شام کے بشارت الاسد نے جو حال ملک شام کا کیا ہے۔ اُس کی بے شمار کہانیاں درد سمیٹے بیٹھی ہیں ۔اس طرح شمالی کوریا کے سابق سربراہ کیم II ثونگ (Kim II Sung)نے امریکی صدور کو بڑی تڑیاں لگائیں اور ایسی ایسی خطرناک دھمکیاں دےںکے آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ کوئی بھی امریکی صدر ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا اور نا ہی جواب دیتا تھا ۔ بعد میں تو پتہ چلا کہ وہ تو شمالی کوریا کے صدر کی باتوں کا نوٹس تک نہیں لیتے تھے ۔ لیکن اس طرح شمالی کوریا کے صدر کی اپنی ملک میں بلےّ بلےّ ہو جاتی تھی۔ عمران خان بنی گالہ سے چار کلومیٹر فاصلے پر موجود ایوان وزیراعظم جانے کے لیے گاڑی کی بجائے ہیلی کاپٹر پر چڑھ کر جاتے تھے جس کے ایندھن کا خرچہ وہ 50 روپے بتاتے تھے حالانکہ اس زمانے میں 50 روپے کا سادہ پان نہیں آتا تھا۔ انہوں نے خبر لگوائی کہ امریکی صدر نے فون کیا اور ایک گھنٹہ دو طرفہ امور پر گفتگو کی ۔یہ خبر انہوں نے خود ہیڈ لائن میں لگوائی۔ اگلے دن ہی امریکی وزارت خارجہ سے ترجمان نے سختی سے اس بات کی تردید کر دی ۔دوسرا لطیفہ ایبسولوٹلی ناٹ (absolutely not)کا تھا کہ جناب عزت ماب نے امریکہ کو پاکستان میں اڈے بنانے پر صاف ٹکہ سا جواب دے دیا ہے۔ جبکہ ایک ہفتہ بعد افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاءپر امریکی حکم پر پورا اسلام آباد ہی سیل کر دیا گیا تھا۔ خاص طور پر وہ ہوٹل اور شاہراہ جس میں حکومت نے تزک و احتثام سے امریکی فوجیوں کو باحفاظت جانے کا راستہ فراہم کیا تھا ۔پھر قوم نے سائفر لہراتے دیکھا اور پھر یہ راگنی الاپتے سناکہ امریکہ نے میری حکومت گرا دی ہے۔حیرت ہے کہ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ وزیر اعظم کی یہ نالج ،یہ اعتماد ،یہ بڑھکیں اور یہ اعمال نامے تھے۔ اس سے کروڑ گنا اچھی تو ہماری پنجاب یونیورسٹی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ ایک بہت بڑا عہدہ ہوتا ہے جو کسی نہایت اعلی تعلیم یافتہ، عالم فاضل، سنجیدہ برُ بردار ذہین و فطین ،حساس اور سمجھدار شخصیت کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو شہباز شریف بطور وزیر اعلی کامیاب تھے اور اسی عہدے کے لیے موضوع تھے۔ نواز شریف کہیں زیادہ بہتر وزیراعظم تھے کیونکہ اُن میں سنجیدگی اور برُدباری تھی۔ وزارت عظمی کے لیے نہایت سنجیدہ ،سمجھدار، با اعتماد، مخلص اوروضعدار آدمی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ قوم کا ترجمان ہوتا ہے۔ شہباز شریف نے گزشتہ برس ایک بیان دیا تھا کہ وہ مہنگائی کم کرنے کے لیے اپنے کپڑے بیچ دیں گے۔ اس کا ایک مطلب یہ نکلتا تھا کہ ان کے ملبو ت اتنے بیش قیمت ہیں کہ ان کے کپڑوں کی مالیت اربوں کھربوں میں ہے جنہیں بیچ کر وہ عوام کی غربت دور کر سکتے ہیں ۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ پاکستانی قوم مہنگائی سے مجبور ہو کر اپنے کپڑے اور گھر کا سامان بیچنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے ایک بیان دیا کہ میں نے سیاست پر ریاست کو ترجیح دی ہے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ریاست پس منظر میں چلی گئی اور جناب دو مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔ ابھی تین دن پہلے وزیراعظم نے کہا تھا کہ بھارت کو پیچھے نہ چھوڑا تو نام شہباز شریف نہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ تین مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ فلاں کام نہ کیا تو میرا نام بدل دےں۔ میرا نام شہباز نہیں۔ نفسیات کی رو سے لگتا ہے کہ میاں شہباز شریف اپنا نام بدلنا چاہتے ہیں ممکن ہے انہیں اب اپنا نام پسند نہ ہو وہ اپنا نام شہباز کی بجائے شاہ رخ، شاہ ز یب یا شاہجہاں رکھنا چاہتے ہوں۔ اس بیان کے دو تین رُخ اور ہیں مثلاً وہ بھارت کو چیلنج کر کے اپنی سوئی ہوئی قوم کو جگانا چاہتے ہیں کیونکہ بھارت ہم سے 50 سال آگے نکل چکا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھارت کو للکار کر چڑاناچاہتے ہیں یا نریندر مودی کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک بھارت کو پیچھے چھوڑنے یا اس سے آگے بڑھنے کی بات ہے تو ان کی موجودہ کارکردگی کے مطابق ہم 21ویں صدی میں تو کسی طرح بھارت سے آگے نہیں نکل سکتے۔ ابھی ہمارے وزیراعظم نے ایک اور بیان داغا ہے۔ اُن کے بیانات بھی 1857 کی جنگ کی توپو ں جیسے ہوتے ہیں جوگھن گرج سے برستی ہیں اور مارتے ایک آدھ بندہ ہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ٹیکس کا ایک ایک پیسہ وصول کریں گے شہباز شریف کو کہنا چاہیے تھاکہ کہتے ٹیکس کے ایک ایک پیسے پر 100 فیصد سود بھی وصول کریں گے۔ ان آٹھ 10 سالوں میں پاکستانی عوام سے ٹیکس تو اتنا وصول کیا گیا ہے کہ اوپر بیٹا شیطان بھی کان پکڑتا ہے اور اس کی بھی کانپیں ٹانگتی ہیں۔ ایک اور بیان ساتھ میں ٹھونکا ہے کہ پاکستان وسائل سے مالا مال اور زرخیز ذمینوں اور ذہنوں سے مالا مال ہے بس نیت کا فقدان ہے۔ حضور آپ کا واحد یہ بیان دل کو چھوتا ہے کہ ایک زرعی ،صنعتی ،اقتصادی ملک ایران، افغانستان روس بھارت چین امریکہ کوریا سعودی عرب سے ہر قسم کی امداد اجناس تیل مشینری لے رہا ہے اور اپنے ہاتھ پا¶ں پر نہیں کھڑا۔ پاکستان اس وقت نصف درجن سے زائد ممالک سے مدد لے رہا ہے۔ ہمارے ہاں تو سوئی بھی نہیں بن رہی ،سوئی لائٹر پیاز آلو ٹماٹر لہسن جوتیاں پیچ کس بٹن تک چین افغانستان ایران بھارت سعودی عرب اور امریکہ سے آتی ہےں۔ وسائل کو مسائل میں دبا دیا گیا ہے قیمتی ذہنوں کو زنگ لگا دیا گیا ہے۔ زمینوں کو بنجر بھانج کر دیا گیا ہے۔وسائل کا رخ اپنی جانب اور مسائل کا طوفان عوام کی طرف کر دیا گیا ہے۔ ٹیکس عوام دیتی ہے اور اشرافیہ عیاشیاں کرتی ہے۔ا ارکان اسمبلی کی تنخواہیں 10 لاکھ اور دیگر اخراجات 40 لاکھ ماہانہ مگر عوام کی آمدن ایک لاکھ بھی نہیں بوڑھے بیمار پینشنرز کی پینشن 50 ہزار یا لاکھ میں بھی کٹوتیاں اور ٹیکس مگر حقیقت میں فی رکن اسمبلی ایک کروڑ سے زائد خرچہ۔ وزیراعظم!! ایسا براوقت تو لوگوں نے فراعین کے زمانے میں نہیں دیکھا۔ نیتوں کا فقدان ہی نہیں، نیتوں کا ہی فتور ہے۔ اگرحکاام بالا کی نیتوں اور اعمالوں میں دوغلا پر نہ ہو تو عوام کی زندگیوں کے ناسور نہ دور ہو جائیں۔ خدا کے لیے نیتوں اور اعمالوں کو درست فرمائیں،ذہنوں و اور زمینوں کی زرخیزی سونا اُگلنے لگے گی۔
ذہنوں، زمینوں ، نیتوں، اعمالوں کے چکر!
Feb 28, 2025