
گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
یہ صرف کہنے کی حد تک ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں ، پائندہ قوم ہیں، متحد قوم ہیں، مضبوط قوم ہیں۔ پہلے تو یہ دیکھیں کہ قوم کس کو کہتے ہیں۔ ایک خطے اور علاقے میں بسنے والے لوگوں کو قوم کہا جاتا تھا۔ علامہ اقبال نے ایک نیا تصور دیا کہ قوم وطن سے نہیں بنتی بلکہ مذہب و ملّت سے بنتی ہے۔ جہاں جہاں یہ مذہب و ملّت ہو گی قوم کا دائرہ بھی وہیں تک وسیع ہو جائے گا۔ اس تصور کو حسین سمجھا گیا اور دلنشین بنا کر پیش کیا گیا۔ خود علامہ صاحب نے فرمایا:
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اسی تصور کے تحت قوم کی بات کی جائے تو یہ کیسی قوم ہے۔ 60مسلمان ممالک ہیں ان میں کہاں اتحاد نظر آتا ہے۔ او آئی سی کا پلیٹ فارم دیکھ لیں ،نہ صرف کئی ممالک ایک ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں بھی ہیں۔ ایک دوسرے پر مہلک ہتھیاروں سے حملہ آور ہیں اور اُسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ ذرا مذہب ہی کی بات کر لیں ۔ مذہبی اکابرین نے اس کی راہنمائی کرنی تھی انہوں نے 72فرقے بنا دیئے۔ کیا ہم زندہ قوم ہیں یا کنفیوژاور الجھی ہوئی قوم ہیں؟ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے پوری دنیا کی راہنمائی کرنی ہے۔
مسلمانوں کے اتحاد کی بات کرتے ہیں تو کل ہی مجھے ایک دوست نے واقعہ سنایا کہ مولوی صاحب مسجد سے نکلے جن کو ایک نوجوان نظر آیا، جس نے پینٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی ،منہ میں پان ،ہاتھ میں سگریٹ تھی ،لمبے لمبے بال تھے ،مولوی صاحب نے اسے روک کر دین سمجھنے کی کوشش کی ، اسے آخرت کے بارے میں بتایا ۔تو نوجوان مولوی صاحب کی باتوں سے متاثر ہوا اور اپنی زندگی دین کے مطابق گزارنے کا وعدہ کیا۔ یہی لڑکا مولوی صاحب کو دو مہینے بعد اسی حلیے میں ملا، مولوی صاحب نے اسے اپنا وعدہ یاد کرایا تو نوجوان نے کہا میں نے اپنی زندگی بدل دی تھی ،نمازیں شروع کر دی تھیں ،ایک مسجد میں گیا تو یہ ایک خاص مسلک کی مسجد تھی ،دوسری میں چلا گیا وہ بھی ایک مسلک کی مسجد تھی ،تیسری اور چوتھی میں بھی ایسا ہی ہوا ۔اور ہر جگہ ایک دوسرے سے نفرت پائی گئی ۔ ایک لائن میں ،ایک صف میں کوئی بھی کھڑا ہونے کو تیار نہیں تھاتو میں مایوس ہو گیا ۔ تو میں سینما گیا وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ سارے کے سارے لوگ جو مسلک کی بات کرتے تھے ایک دوسرے کے برابر بیٹھ کر فلم دیکھ رہے تھے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم لوگ کہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور کہاں نفرتوں کا اظہار کرتے ہیں۔
سیاسی طور پر دیکھیں تو سب سے زیادہ کنفیوژن ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت پائی جاتی ہے۔ ان ممالک میں ری فائن ہوتے ہوتے دو پارٹی سسٹم وجود پکڑ چکا ہے۔ ایک ڈیموکریٹک پارٹی ہوتی ہے دوسری ری پبلکن پارٹی۔ ہم بطورِ ’’قوم‘‘ ابھی تک ایک نظام پر ہی متفق نہیں ہو سکے۔کہیں بادشاہت ہے، کہیں خلافت ہے، کہیں امارت ہے ، اگر کہیں نام کی جمہوریت ہے تو ملوکیت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ وطنِ عزیز کی بات کی جائے تو ہر ادارے میں تقسیم موجود ہے۔ نہ صرف ادارے خود تقسیم ہیں بلکہ ان کو کچھ حلقے اور طبقے زیادہ تر سیاسی حلقے اس تقسیم کو اپنے حق میں بڑی بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال عدلیہ اور فوج کی ہے۔ عدلیہ میں تقسیم بڑی واضح ہے۔ بارز اور وکلا تقسیم ہیں۔ ہر پارٹی ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ پارٹیوں کی لیڈرشپ کی طرف سے برملا کہا جاتا ہے یہ ہمارے جج ہیں، یہ ہمارے سپورٹر جرنیل ہیں۔بڑی عدالتوں کے بڑے ججوں کے مابین دوران سماعت بھی کئی بار ایک دوسرے پر بات ہوتی رہتی ہے۔ بنچ سے اٹھ کر چلے جانے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ صحافت میں گروپ بندی ہے۔ صحافت میں غیرجانبداری عدلیہ کی طرح شرطِ اولین ہے مگر گروپوں میں بٹ کر صحافت کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے۔صحافت کے کچھ گروہ ایک پارٹی کو کچھ دوسری کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اوروں نے تو کیا خود بڑے بڑے صحافی ایک دوسرے کو لفافہ صحافی اور کالی بھیڑ قرار دیتے ہیں۔ کرکٹ ٹیم میں تقسیم آ چکی ہے جس میں کچھ کرداروں نے مذہبیت کو داخل کر دیا ہے۔ ہاکی پاکستان کا مضبوط ترین کھیل تھا۔ پاکستان تین بار اولمپئین بنا ،پھر ہاکی میں تقسیم شروع ہوئی، گروہ بندی ہوئی تو ہاکی کا ستارہ بھی ڈوب گیا۔
پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان سیاسی گروہ بندی نے پہنچایا ہے۔ سیاسی اختلافات ذاتیات سے بڑھ کر دشمنی تک جا پہنچے۔ دشمنی میں جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ سیاسی و ذاتی مفادات کو اولیت دی جاتی ہے۔ قومی مفادات پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے تک پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ پاکستان کے بہترین مفاد کے منصوبے کالاباغ ڈیم بھی گروہی سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مضبوط ہاتھوں میں نہ ہوتا تو وہ بھی گروپ بندی کا شکار ہو چکا ہوتا۔ اب بھی موقع ہے کہ ہم کنفیوژن سے نکلیں اور مضبوط و متحد قوم بن جائیں۔ اس حوالے سے ہر ادارے کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔
قارئین! میں نے اپنے گذشتہ لکھے گئے چند کالمز میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ قوم کسے کہتے ہیں اور ہمیشہ یہ مثال دے کر اپنا نقطہ نظر قارئین تک پہنچانے کی معصوم سی کوشش کی ہے۔مثلاًایک امریکی ڈالر آج کل بازار میں تین سو روپے کا بِک رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک امریکی شہری جتنا اپنے ملک سے پیار کرتا ہے اتنا ہم تین سو پاکستانی مل کر بھی نہیں کر پا رہے۔اور جس دن ہم اپنے وطن سے، اپنی قوم سے واقعی مخلص ہو گئے یا پیار کرنے لگ گئے تو اس دن ڈالر اور روپے کا ایکسچینج ریٹ برابر ہو جائے گا۔مگر سرِدست ہم ایک کنفیوژ گروہ کی طرح ہیں جسے قوم کہنا قومیت سے ناانصافی ہو گی۔