پی ڈی ایم کنفیوز کیوں

یہ حکومت لگتا ہے جنوری سے پہلے د سمبر میں ختم ہو جائیگی۔ آٹھ تاریخ پی ڈی ایمکے اجلا س میں آر ہوگا یا پار ہوگا، سلیکٹڈ کو گھر جانا پڑیگا، 13تاریخ کو لاہور کا جلسہ ریفرنڈم ہوگا، فیصلہ ہو جائیگا، استعفیٰ منہ پر مار دیے جائینگے، فوج حکومت کی پشت پناہی نہ کرے۔ دو ہزار کے جلسے میں کھڑے ہو کر یہ کہنا کہ یہ 22کروڑ پاکستانی جب لانگ مارچ کرینگے تو حکومت کو یہ طوفان تنکوں کی طرح بہا کر لے جائیگا، اب حکومت کو این آر او نہیں ملے گا۔ اس سے قبل گلگت میں یہ اعلان کہ ’’لکھ لو جنوری میں حکومت ختم ہو جائیگی ‘‘اور اب یہ کہنا کہ حکومت کو آئینی طریقے سے اسمبلی میں ختم کیا جائیگا۔ اس سے کچھ قبل آزادی مارچ کے دھرنے میں یہ اعلان کہ دو دن کاوقت دیتے ہیں فوج ہٹ جائے اور عمران خان مستعفی ہو جائیں، دو دن بعد یہ اعلان کہ یہ احتجاج ہم نے ملک بھر میں پھیلا دیا ہے اور اسلام آباد سے نکل جانا۔ اسکے بعد یہ اعلان کہ ہمارا کوئی نمائندہ کسی بھی صورت کسی فوجی سے ملاقات نہ کریگا۔ اور زبیر صاحب کا قدموں میں بیٹھ جانا، یہ کہنا کہ ہمارے بندے رابطے میں ہیں۔ اس سے کچھ پہلے یہ کہنا کہ لندن تو کیا میری تو پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں پھر کہنا الحمد للہ سب کچھ ہمارا ہے۔ اسے سے کچھ قبل اسمبلی میں یہ کہا گیا کہ جناب یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کی جائیدادیں خریدی گئیں اور عدالت میں ذرائع پیش ہوئے تو وہ صرف ایک کاغذ قطری خط تھا۔ ایک پائی دھیلے کی کرپشن نہیں کی اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اربوں ڈالر کہاں سے آگئے۔ اسکے علاوہ اب تک جو کچھ تین بندوں کی پی ڈی ایمنے کہا ہے کہ یا کہہ رہی ہے اسکا کوئی سر پیر نہیں ہے یوں لگتا ہے پی ڈی ایم سیاسی پنجرہ ہے جس میں بند سیاسی پرندے بھانت بھانت کی بولیاں بولے جا رہے ہیں اور پاکستان کے باشندے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ تین بندے جو کبھی جمہوریت بن جاتے ہیں ، کبھی پاکستانی عوام بن جاتے ہیں، کبھی تین پارٹیاں بن جاتے ہیں ، کبھی آئین و قانون بن جاتے ہیں ۔کبھی اپوزیشن بن جاتے ہیں ، کبھی پی ڈی ایمبن جاتے ہیں۔ اس سے بھی کچھ پہلے یہ ایک دوسرے کو چور کہہ کر ایکدوسرے کے پیٹ پھاڑنے، سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے ایکدوسرے کو غدار کہتے ہیں، انگریزوں کے کتے نہلانے کا ایک دوسرے پر الزام لگاتے تھے سب سے بڑھکر یہ کہ !!!ان میں ایک خود کو شہید اور دوسرے کو قاتل قرار دیتا تھا، دوسرا ملک توڑنے کا الزام لگاتا تھا لیکن آج انکا رنگ برنگا واویلا دیکھ کر لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ انہیں ہو کیا گیا ہے؟ یہ کہ اس اصلی جنجال پورے و سرکس کو ملک کا کچھ میڈیا فرشتے ثابت کرنے پر کیوں دن رات ایک کر رہا ہے؟ یہ اس قدر کنفیوز کیوں ہیں ؟ یہ چاہتے کیا ہیں؟ یہ سوال عام پبلک کو پریشان کر رہے ہیں لیکن!! جو لوگ انہیں شروع سے جانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تین گروپ جو مسترد ہونے کے بعد اپوزیشن بھی ہیں اورپی ڈی ایم بھی ہیں ہیں، ان سب کے الگ الگ قبلے ہیں اور الگ الگ آذانیں ہیں۔ الگ الگ امام ہیں، جنکی انہیں الگ الگ مدد ہوتی ہے تو لازمی بات ہے انہیں ملنے والی آیات بھی الگ الگ ہوتی ہیں تو فطری بات ہے انکا عمل بھی الگ الگ ہوتا ہے ۔ہائبریڈ وار کے مالک و بانی جب پاکستان اور فوج کیخلاف جب کوئی ٹینڈر جاری کرتے ہیں تو بولی لگانے والوںمیں سوائے پاکستانیوں کے دیگر کوئی فرم کوالیفائیڈ ہی نہیں کرتی تو لازمی بات ہے یہ بولی وہی دے سکتا ہوگا جس نے اپنے ارد گرد کچھ اکٹھ بھی کر رکھا ہوگا۔ انکا الگ الگ عمل لیکن کام ایک یعنی فوج پر حملے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا پاکستانیوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے جو طریقہ کار ہائبریڈ وار والونکا کا ہے، وہی طریقہ کار ان کنفیوز لوگوں کا کیوں ہے؟ یہ پاکستانی ہیں تو پاکستان کیخلاف زہر اگلنے والا بھارت انکا دوست کیوں ہے ؟ جو انہیں اورانکے بڑوں کو جانتے ہیں( جو قیام پاکستان اور قائد اعظمؒ کے اعلانیہ مخالف تھے) وہ سمجھتے ہیں انکی بے ربط سیاست کی وجہ یہ ہے کہ ان میں ہر ایک کو اپنی بولی کا خیال بھی رکھنا ہے اور دوسروں کا بھی جس میں ہم آہنگی نہیں لا پاتے یہ لوگ!! جب ہم آہنگی نہیں آپا رہی تو کوئی بیانیہ نہیں بن پا رہا تو انکی تمام باتیں عوام کو ایک بے ہنگم شور لگتا ہے!! کوئی ایک بیانیہ نہیں بن پا رہا تو انہیں خود سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ یہ بہکی بہکی باتیں کرتے اس لیے ہیں کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہا کہ آگے ہوگا کیا؟ مدرسوں اور میڈیا کے علاوہ دیہاڑی داروں پر کیا گیا کروڑوں اربوں کا خرچہ کار آمد بھی ہوگا یا نہیں؟پاکستانی بھائیو!! کسی بڑے گروہ کے ڈیرے پر کچھ لوگ آکر پناہ لیں جن کا پتہ چلے کہ وہ اربوں کھربوں کے ڈاکے مار کر آئے ہیں تو کیا خیال ہے پناہ دینے والا بڑا گروہ ان پناہ گزین لٹیروں سے لوٹ کا مال چھین نہ لے گا؟ اگر نہ بھی چھینے تو کیا ان سے اپنا من چاہا حصہ وصول نہ کریگا؟ ضرور کریگا چوروں کو مور ضرور پڑے گا!! اگر یہ درست ہے تو پھر ان لوگوں سے مولانا نے اپنا من چاہا حصہ وصول کیوں نہ کیاہوگا؟ ضرور کیا ہوگا۔ انہوں نے سرداری تک مولانا کو دے دی تو پھر لوٹ کا مال کیوں نہ دیا ہوگا؟ انکا جیل سے لندن منتقل ہو جانا، مدرسوں کے بچوں تک کو ، اپنی پوری جماعت کو مولانا کا دائو پر لگا دینا خود ثبوت ہے اس بات کا کہ حصہ بقدر حصہ نہیں بلکہ حصہ بقدر غصہ مولانا نے بھی وصول ضرور کیا ہے۔
پیسہ بھی گیا، سیاست و سرداری بھی گئی اسکے باوجود جیل مقدر نہ ہو جائے، یہ سوچ پی ڈی ایم کی کیوں نہ ہوگی؟ ضرور ہوگی کبھی تخت کبھی تختہ، کبھی ریل کبھی جیل اور تصور میں تلوار کی طرح آنکھوں کے سامنے ہتھکڑیاں ہونگی تو پاکستانیو! یہ بد حواسی، بد تمیزی، گالم گلوچ کے حامل لوگ کنفیوز بھی ہونگے۔ انکی کنفیوژن میں ایک نیا رنگ اس دن ہوگا جب انکے لانگ مارچ کے مقابلے میں ’’پاکستانی لورز‘‘ کا ایک لانگ مارچ بھی اسلام آباد کی طرف بڑھے گا اور وہ ایک سیلاب کی طرح ان کو چاروں طرف سے گھیر کر یہ مطالبہ کرے گا کہ ان سب پر آرٹیکل چھ لگایا جائے ورنہ ہمارا دھرنا بھی ختم نہ ہوگا اور نہ ہی ان دیہاڑی داروں کو واپس بھاگنے دیا جائیگا۔ ایسا ہوگا تو انکی اصل کنفیوژن قوم کے سامنے آئیگی تب یہ لوگ بھی دو ہزار لوگوں کو بائیس کروڑ عوام قرار نہ دیں گے۔پی ڈی ایمکا بیانیہ ایک اس لیے نہیں کہ انکا مفاد الگ الگ ہے جسکی وجہ سے انکا مستقبل واضح نہیں اس لیے کہ پی ڈی ایم کنفیوز ہے۔