اتوار15 رجب المرجب 1442ھ‘ 28؍ فروری 2021ء
این اے 75 تحقیقات دوبارہ پولنگ سے زیادہ ضروری ہے: نوازشریف
کیا ضروری ہے کیا نہیں اس کا میاں جی کو شاید زیادہ اندازہ ہوگا۔ ابھی تو عدالت کی طرف سے حلقہ این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن کا حکم آیا ہے۔ اسی پر مسلم لیگ (ن)والے خوشیاں مناتے نہیں تھک رہے۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے اس عدالتی حکم کیخلاف اپیل کی گئی ہے۔ یوں معاملہ ابھی عدالتوں میں ہے۔ مسلم لیگ (ن) والے اسے اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ ان حالات میں نوازشریف جو لندن میں بیٹھے ہیں خوش ہونے کے بجائے ایک بار بھی سنجیدہ اور مدبر نظرآتے ہوئے بڑی دانائی کی گفتگو کررہے ہیں۔ موصوف کہہ رہے ہیں کہ حلقہ 75 میں الیکشن سے زیادہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اب حکومت ان کے دانشمندانہ فرمودات پر عمل کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کرے اور تحقیقات مکمل ہونے تک الیکشن روک لے۔ اس طرح حکومت کو بھی اطمینان ہوجائے گا اور اپوزیشن والے بھی جو اچھل اچھل کر مبارکیں دے رہے ہیں‘ سکون سے بیٹھ جائیں گے۔ اس پر معلوم نہیں مریم بی بی کیا پالیسی اختیار کرتی ہیں۔ وہ شاید جیت کے حوالے سے پرعزم ہیں۔ اس لئے وہ تو کسی بھی قیمت پر کسی بھی صورت ڈسکہ حلقہ این اے 75 میں الیکشن کے التواء کی کوئی تجویز پسند نہیں کریں گی کیونکہ ان کے نزدیک یہ دو چار ہاتھ آکر لب بام رہنے والی بات ہے۔ اس لئے میاں نوازشریف کی تحقیقات والی تجویز کو حکومت مختلف وجوہات کی بنا پر پسند نہیں کرے گی۔ خود مسلم لیگ (ن) والے بھی اسے تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیں گے۔
٭٭٭٭٭
پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کا گورنر سندھ کو ہٹانے کا مطالبہ
یہ سارا تنازعہ سینٹ کے الیکشن میں صوبہ سندھ سے بعض افراد کو پی ٹی آئی کے امیدوار نامزد کرنے پر اٹھا ہے۔ پی ٹی آئی کے متعدد ارکان نے سیف ابڑو کو ٹکٹ دینے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے مگر ٹکٹ جاری کرنے والوں نے ان کے اعتراضات کو اہمیت نہیں دی۔ لیاقت جتوئی جوامید کررہے تھے کہ انہیں سینٹ کے امیدوار کا ٹکٹ مل جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا اور ایک نیا کھلاڑی درمیان میں کود کر یہ ٹکٹ لے اڑا۔ اس پر لیاقت جتوئی اور ان کے ساتھ دیگر متعدد ارکان اسمبلی ناراض ہیں کہ ان کی دیرینہ خدمات کو نظرانداز کیا گیا اور چند ماہ قبل پارٹی میں آنے والے کو ٹکٹ دیا گیا۔ جتوئی صاحب تو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ یہ ٹکٹ سیف ابڑو کو مبلغ 34 کروڑ روپے سکہ رائج الوقت جس کا نصف 17 کروڑ روپے ہوتے ہیں کے عوض دیا گیا ہے۔ سچ کیا ہے جتوئی جانے، ابڑو جانے یا پھر خدا جانے۔ سینٹ کے امیدواروں سے بھاری نذرانوں کے عوض ٹکٹوں کی فروخت کی پہلے ہی ایک ویڈیو کافی گند مچا چکی ہے جو ابھی تک صاف نہیں ہوا تھا۔ جتوئی صاحب نے 34 کروڑ کا پرنالہ کھول دیا۔ اس صورتحال میں اب گورنر سندھ کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کرکے یہ ناراض ارکان پی ٹی آئی کیلئے سندھ میں مزید مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ ویسے بظاہر تو یہ مطالبہ کھوتے سے گرنے پر کمہار پر غصہ نکالنے والی بات لگتاہے۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد: تہران اور استنبول کے درمیان 4 مارچ سے کنٹینر ٹرین بحال کرنے کا فیصلہ
یہ ایک عمدہ فیصلہ ہے اس سے ریلوے کو خسارے پر قابو پانے میں مدد ملے گی جو آکاس بیل کی طرح پورے ریلوے سسٹم کو لپیٹ رہا ہے۔ ویسے بھی سڑک کی بجائے ریلوے کارگو سے مال برداری سستی اور محفوظ رہتی ہے۔ خوش قسمتی سے آر سی ڈی کے متروکہ معاہدے کے تحت ایران، پاکستان اور ترکی کے درمیان آر سی ڈی شاہراہ تعمیر ہوئی اور ٹرین کی پٹڑی بھی بچھائی گئی تھی۔ یہ دونوں ابھی تک زیراستعمال ہیں کچھ عرصہ سے ریل کارگو سروس معطل تھی۔ اب 4 مارچ سے ایک بار پھر بحال ہورہی ہے جو خوش آئند ہے۔ اگر تینوں ممالک خلوص اور دوستی کے اس منصوبے کو مزید بہتر بنائیں اور ترقی دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان، ایران ، ترکی کے درمیان آر سی ڈی شاہراہ اور ریل سروس کو سیاحت اور تجارت کیلئے فعال اور منافع بخش نہ بنایا جاسکے۔ تیز رفتار عمدہ ریل سروس اور متوازن ہموار بہترین موٹر وے طرز سے سڑک بننے سے یہ تینوں ملک بھرپور سیاحتی و تجارتی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ عوام بھی اس سہولت سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ تجارتی و صنعتی حلقوں کیلئے تو ریلوے کارگو سروس اخراجات میں کمی اور منافع میں زیادتی کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہے۔ امید ہے تینوں ممالک ان منافع بخش شعبوں کو بہتر بناکر فعال بناکر دوستی کے رشتوں کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ اس میں تینوں ممالک کا ہی فائدہ ہے۔ اس سے پاکستان، ایران اور ترکی کے لوگ آسانی سے ایک دوسرے کے ملک آجاسکیں گے۔
٭٭٭٭٭
جماعت اسلامی کا بہاولپور میں مہنگائی کیخلاف مارچ
شکر ہے ہماری سیاسی جماعتوں میں سے کسی نے مہنگائی کیخلاف بھی آواز بلند کی۔ ورنہ لگتا تھا سب صرف سیاسی محاذ آرائی کے گرم ماحول کا مزہ لے رہے ہیں ۔ صرف زبانی کلامی مہنگائی کیخلاف بیان بازی سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ لوگ یونہی بھوکے مرتے رہیں گے، خودکشیاں ہوتی رہیں گی مگر حکمران اور اشرافیہ سب اچھا ہے کے نعرے لگاتی رہے گی جبکہ اپوزیشن جماعتیں مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے تعزیتی اور جذباتی بیانات جاری کرتے رہیں گے۔ تو جناب یہ کام پہلے بھی ہوتا رہا ہے اب بھی ہوتا رہے گا۔ یہ تو جماعت اسلامی والوں کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے حقیقی عوامی مسئلے پر اب میدان عمل میں کودنے کا فیصلہ کیا ہے۔بہاولپور میں جماعت اسلامی کا مہنگائی کیخلاف مارچ شاید اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امید ہے اب سراج الحق خاموش نہیں رہیں گے۔ اس طرح مہنگائی کے مسئلے پر حکمرانوں کو للکارتے رہیں گے۔ آخر کوئی تو ہو جو اس عفریت کے خلاف عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرے۔ مدہوش حکومت کو ہوش میں لائے۔ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہی مہنگائی ہے باقی سب بعد میں آتے ہیں۔ یہی بات سچ بھی ہے کیونکہ ’’جب پیٹ میں روٹیاں نہ ہوں تو سب باتیں جھوٹی لگتی ہیں۔‘‘اس وقت مہنگائی کا جن پوری شدت کے ساتھ عوام پر حملہ آور ہے۔ خدا کرے جماعت اسلامی ہی اس جن کیخلاف میدان میں ڈٹ جائے اور عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ہی مل پائے۔