’’ رَل کے ’’چلِّیئے! خواجہ جیؒ دے ڈیرے جی!‘‘

معزز قارئین !کل (14 رجب اُلمرجب 1442 ھ ، 27 فروری 2021ئ) کو پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے عقیدت و احترام سے خواجہ ؔغریب نواز نائب ؔرسولؐ فی الہند حضرت مُعین ؔاُلدّین چشتی اجمیریؒ کا یوم ولادت منایا ۔ (6 رجب اُلمرجب 19 فروری 2021ء کو) مَیں نے ’’ خواجہ جی بنے مورے مِیت رے ‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں حضرت خواجہ صاحبؒ کی حیات طیبہ کرامات اور نائب رسول ؐ فی الہند کی حیثیت سے اُن کی برکات کا تذکرہ کِیا تھا ۔ کالم کی ایک ضمنی سُرخی تھی …
’’ہندوستان کی مختلف زبانیں !‘‘
مَیں نے لکھا تھا کہ تواریخ کے مطابق ’’ لاہور میں حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویریؒ کے دربار میں چلّہ کشی کے بعد خواجہ غریب نوازؒ،اپنے مُریدِ خاص ( بعد ازاں ،خلیفہ ) حضرت خواجہ قطب اُلدّین بختیار کاکیؒ سمیت 40 مُریدوں کے ساتھ 5/4 سال تک ملتان میں رہ کر ہندی ، سرائیکی ( پنجابی ) اور کئی علاقائی زبانیں سیکھتے رہے ، چنانچہ اُنہیں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں ہندوستان کے کسی گوشے میں مشکل پیش نہیں آ ئی ؟ معزز قارئین !۔ میرے اُسی کالم کی دوسری سُرخی تھی …
’’اجمیر شریف دِیاں گلیاں !‘‘
صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میںجب مَیں 4 جون 2004ء کو اجمیر شریف گیا تو خواجہ غریب نوازؒ کی بارگاہ کے ارد گرد مجھے بار بار ’’ اجمیر شریف دِیاں گلیاں ‘‘ دیکھنے کا شرف حاصل ہُوا۔ مَیں کئی بار یہ سوچتا رہا کہ ’’ شاید اِس گلی میں یا اُس گلی میں میرے آبائو اجداد نے خواجہ غریب نوازؒ کو (اپنے 40 مُریدوں کے ساتھ ) اُن کی اپنی زبان ( ہندی / راجستھانی ) میں خطاب کرتے ہُوئے اُن کے دست مبارک پر اسلام قبول کِیا ہوگا ؟ ۔ پھر وطن واپسی پر مَیں نے پنجابی زبان میں ’’آئو سارے ٗ رَل کے چلِّیئے ،خواجہ جیؒ دے ڈیرے جی!‘‘کے عنوان سے نظم لکھی تھی۔
’’خواجہ غریب نوازؒ کی مادری زبان ! ‘‘
معزز قارئین ! حضرت خواجہ غریب نوازؒ ، ایران کے علاقہ ’’ سیستان ‘‘ کے قصبہ سنجرؔ میں پیدا ہُوئے تھے جو ایران کے ’’ خاندانِ سلجوکیہ ‘‘کے چھٹے بادشاہ ملک شاہ کے نام پر تھا ۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی مادری زبان فارسیؔ تھی اور جب آپ نے مختلف عُلماء و فضلاء سے تعلیم و تربیت حاصل کی تو قرآنِ پاک اور احادیث نبویؐ کے مطابق اُنہیں عربی زبان پر بھی مہارت حاصل ہوگئی۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے دو شادیاں کی تھیں ۔ ایک اہلیہ ٔ محترمہ ایک ہندو راجا کی صاحبزادی تھیں جنہوں نے اسلام قبول کر کے حضرت خواجہ صاحبؒ سے شادی کر لی تھی۔ اُن کا نام امتہ اللہ رکھا گیا تھا۔ اُن کی مادری زبان ہندیؔ (راجستھانی) تھی۔
’’ایک جیسی پاکستانی حکومتیں؟‘‘
معزز قارئین ! صدر جنرل پرویز مشرف کے بعد سے لے کر آج وزیراعظم عمران کے دَور میں بھی پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام کی زبوں حالی پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ تو کیوں نہ مَیں ایک بار پھر پاکستان کے محب وطن اور غیرت مند لوگوں سے پھر یہی اپیل کروں کہ…؎
آئو سارے ٗ رَل کے چلِّیئے ،
خواجہ جیؒ دے ڈیرے جی!
…O…
آپے آپ تے،دُور نہ ہو سن ،
انّھ مچاندے ، ہنیھرے جی!
دِل دا دِیوا، بال کے کرِئیے،
چاننؔ، چار، چُفیرے جی!
…O…
آکِھئیے خواجہ اجمیریؒ نُوں،
بندے اسِیں، ودھیرے جی!
سانُوں قابو کر لَیندے نیں،
گَھٹّ گِنتی دے، وڈیرے جی!
…O…
نِکّے، لِسّے ربّ توں رحمت،
منگن، سنجھ سویرے جی!
قومی دولت، کھا جاندے نیں،
ڈھاڈے لَم ، لمیرے جی!
…O…
مَنتر، کِیل دا کِتھّوں لیا ئِیے،
مِلدے نہیں، مَنکیرے جی!
ایکا کر لیا، کٹھّے ہو گئے،
سارے سپّ ٗ سپیرے جی!
…O…
پَل پَل، ڈُبدے جاندے ، جدّی ،
پُشتی، کمِیّں، کمیرے جی!
راج کریندے، پاک وطن تے،
اعلیٰ نسل دے‘ سُکھیرے جی!
…O…
قاضی ، مُلّاں، رجّ کے کھاندے،
زردہ پلاء حلویرے جی!
حال مُریداں دا بھَیڑا اے،
جِیویں بھُکھّے بٹیرے جی!
…O…
اثرؔ چوہان، دُعا واں منگِئیے،
ربّ ساڈے دِن ، پھیرے جی!
آئو سارے رَل کے چلِّیئے،
خواجہ جیؒ دے ، ڈیرے جی!
…O…
معزز قارئین ! تحریک پاکستان کے دَوران سِکھوں نے مشرقی پنجاب ( اب بھارتی پنجاب) میں پنجابی بولنے والے 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا تھا اور پنجابی بولنے والی55 ہزار مسلمان خواتین کو اغواء کر کے اُن کی آبرو ریزی کی تھی تو کیا پاک پنجاب کے مسلمان اور ہر ملک میں آباد سِکھّ ایک قوم کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ اگست 2011ء کو مَیں نے لاہور سے اخبار سائز ہفتہ وار "Four Colour" پنجابی جریدہ ’’ چانن‘‘ جاری کِیا۔ مَیں نے نومبر 2011ء کے شمارے میں ’’مفسرِ نظریہ ٔ پاکستان ‘‘ جنابِ مجید نظامی کا انٹرویو شائع کِیا۔ پنجابی زبان میں جنابِ مجید نظامی کا یہ پہلا اور آخری انٹرویو تھا ۔ جنابِ مجید نظامی نے یہ بھی کہا کہ ’’ پاک پنجاب دے جیہڑے شاعر ، ادیب، دانشور تے صحافی ، پاک پنجاب تے بھارتی پنجاب دِی سرحدی لکیر مٹاونا تے سِکھّاں نال ’’سانجھ ‘‘ کرنا چاہوندے نیں ، اوہ ایتھوں (پاکستان توں) دفع ہو جان ‘‘۔
’’ تمام زبانیں اشرف ! ‘‘
مَیں کئی بار لکھ چکا ہُوں کہ ’’ جب اللہ تعالیٰ نے ہر اِنسان کو اشرف اُلمخلوقات قرار دِیا ہے توہر شخص کی مادری زبان اور قومی زبان بھی اشرف ؔہے لیکن بھارت اور دُنیا بھر کے سِکھّوں کی پنجابی گُور مُکھی مختلف ہے ۔ پاک پنجاب میں بولی اور لکھی جانے والی پنجابی سے مختلف ہے ۔میرا سالہا سال سے یہی مؤقف ہے کہ …؎
اِک مِک نئیں کرسدا کوئی
گولا ،نہ کوئی گولی!
وَکھری پاک پنجاب دِی بولی
وَکھری سِکھی بولی !
… O …