سینٹ الیکشن ‘ وزیراعلیٰ کی بردباری

ایک ایسے عالم میں جب سینٹ انتخابات کے حوالے سے سیاسی فضاکافی گرد آلود تھی اور پار لیمنٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک اہل سیاست گتھم گتھا تھے تو ایک عجیب واقعہ ہوا ۔ پنجاب جو حالیہ سیاست میں بوجوہ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے ان دنوں زیادہ زیر بحث تھا اور اپوزیشن اور اہل اختیار کے مابین اسی صوبے میں زیادہ رسہ کشی کی فضا تھی اپوزیشن کی زیادہ متحرک جماعت مسلم لیگ ن کی قیادت کا تعلق اسی صوبے بلکہ لاہور سے تھا اس لئے سب کی نظریں اسی صوبے پر تھیں ۔ اپوزیشن کے بعض راہنما کھل کر بیان بازی کر رہے تھے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کے ارکان ان سے رابطے میں ہیں ایسے ہی ان کو جواب بھی دیئے جا رہے تھے ۔نوٹوں کی بوریاں کھلنے کے خطرات بھی اسی صوبے میں زیادہ تھے اور ووٹوں کی خرید و فروخت کی باتیں عام ہونے لگی تھیں جس سے اہل سیاست عوام کی نظروں میں بے وزن ہونا شروع ہو گئے تھے ۔ اس سارے ماحول میں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی تھی کہ وہ پنجاب اسمبلی میں لیڈر آف دی ہائوس کی حیثیت سے اپنی جماعت کے ارکان کی تعداد کی مناسبت سے سینٹ میں جماعتی نمائندگی کو یقینی بنا ئیں اور پنجاب کی حد تک ووٹوں کی خرید و فرخت کے الزام سے اہل سیاست کے دامن کو صاف ستھرا رکھنے میں بھی اپنا کردار ادا کریں ۔ چنانچہ انہوں نے کام شروع کیا اور پھر سب نے دیکھا کہ پنجاب میں ہی سینٹ کی تمام سیٹوں پر بلا مقابلہ فیصلہ ہو گیا ۔ سیاسی حلقے اس عجیب اور نا قابل یقین واقعہ کو سیاسی ہم آہنگی کے حوالے سے ایک بڑا بریک تھرو قرار دے رہے ہیں چونکہ ایسا باقی صوبوں میں نہیں ہوا اس لئے اس کا کریڈٹ بھی حکمران جماعت کی پنجاب میں قیادت اور خصوصاً وزیر اعلی پنجاب کو دے رہے ہیں پنجاب میں سیاسی ہم آہنگی کے اس ماحول کو اگر برد باری کے جذبے سے آگے نہ بڑھایا جاتا تو یقینی طور پر یہاں ایک دوسرے کے خلاف گرد اڑانے کا عمل تیز ہو جاتا ۔ سردار عثمان بزدار کی شہرت بڑھکیں مارنے والے سیاستدان کی بجائے احترام باہمی بردباری اور تحمل مزاجی کے حامل سیاستدان کی ہے اور شاید جنوبی پنجاب سے تعلق بھی اس مٹھاس کا سبب ہے چنانچہ ان کی شخصیت کے اسی پہلو نے کام دکھایا ۔ ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں اپوزیشن کی قیادت کی طرف سے بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کیا گیا اور نتیجہ پوری قوم نے دیکھا۔سیاسی ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنے کا پہلا ثمر سیاسی جماعتوں کو یہ ملا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں موجود اپنے ارکان کی تعداد کی مناسبت سے تحریک انصاف مسلم لیگ ن کے پانچ پانچ ارکان سینٹ کامیاب ہو گئے ہیں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کو بھی ایک سیٹ مل گئی ہے اور اب ان جماعتوں کے ارکان اعجاز چوہدری، عون عباس، سیف اللہ نیازی، زرقا تیمور، علی ظفر، ساجد میر، عرفان صدیقی، افنان اللہ خان، سعدیہ عباسی،اعظم نذیر تارڑ اور کامل علی آغا تین مارچ کو الیکشن کی چھاننی سے گزر کر آنے والے دیگر ارکان کے ساتھ حلف اٹھائیں گے۔ اس بار مجموعی طور پر 48 نئے ارکان سینٹ کی زینت بننے والے ہیں جو ریٹائر ہو جانے والے ارکان کی جگہ لیں گے ۔ نئے ارکان میں بارہ بارہ ارکان بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سے گیارہ گیارہ پنجاب اور سندھ سے اور دو ارکان وفاقی دارالحکومت سے ریٹائر ہونے والوں کی جگہ نمائندگی کر یں گے ۔ پہلے شمالی علاقہ جات کے لئے الگ سینٹر ہوتے تھے مگر اب ان کو صوبہ خبر پختونخوا میں ضم کر لیا گیا ہے اس لئے اب ان علاقوں سے الگ سینٹر نہیں ہوں گے ۔اب تک کی صورت حال کے مطابق حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ خسارے میں مسلم لیگ ن رہے گی کیونکہ اس کی نئی نمائندگی صرف پنجاب سے پانچ ارکان پر مشتمل رہنے کا امکان ہے جب کہ اس کے اس بار 17 سینیٹر ریٹائر ہوئے ہیں تحریک انصاف کو اس بار سب سے زیادہ نمائندگی ملنے کا امکان ہے اور سینٹ میں سنگل لارجسٹ پارٹی بن جائے گی۔ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور تیسرے نمبر پر مسلم لیگ ن اور چوتھے نمبر پر بلوچستان عوامی پارٹی دس سے زائد سیٹوں کے ساتھ موجود ہو گی ۔ صوبہ پنجاب میں جس طرح ہم آہنگی کا مظا ہرہ کیا گیا ہے کچھ اس کے اثر کے تحت اور کچھ سابقہ سینٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی ویڈیوز کے سا منے آنے اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے اوپن بیلٹ کے نعرے صدارتی آرڈننس اور صدر کی طرف سے سپریم کورٹ میںریفرنس سے بننے والی فضا میں امید ہے کہ 3 مارچ کو انتخابی میدان بھی صاف ستھرا رہے گا اور امید کی جانی چاہئے کہ کوئی تلخی پیدا نہیں ہوگی ۔ ویسے بھی اگر پنجاب میں جہاں سیاسی محاذ آرائی عروج پر تھی اگر سیاسی قیادت کی بہتر حکمت عملی سے برد باری کے جذبے سے کام لے کر اور ایک دوسرے کو برداشت کر کے ایک اچھی مثال قائم کی جا سکتی ہے تو باقی سیاسی عمل کو خوشگوار کیوں نہیں بنایا جا سکتا ۔