عمرہ کے موضات و برکات
زندگی میں ہمیشہ یہ خواہش اور تمنا رہی کہ حج کے فریضہ کی ادائیگی سے پہلے عمرہ کی سعادت حاصل کرسکوں لیکن غم دوراں اور غم جاناں کے جھبیلوں میں الجھتے گئے اور اس سعادت سے محروم چلے آئے ۔ ملازمت کی قیدسے رھائی کے بعد عمرہ کی سعادت کے حصول کی خواہش شدید ہوتی گئی ۔ کچھ سال پہلے اپنا پاسپورٹ اسی جذبہ کے تحت بنوایا مگر جب دیکھا تو وہ اپنی مدت پوری کرچکا تھا ۔ اس بار بار گاہ الہٰی اور آقاکریم ﷺ کے حضور حاضری کی خواہش اتنی شدت سے تھی کہ جانے کا قصد کرلیا ۔ اپنے دیرنہ رفیق ملک اللہ بخش سے اپنی اس تمنا کا اظہار کیا تو وہ بھی اسی تبصراری میں تھا ۔ انہوں نے بھی میرے ہمراہ جانے کا ارادہ کرلیا ۔ اس باتو تو واقعی بلاوا تھا ۔ تمام دستاویزات دنوں میں مکمل ہوئے اور عزیزم وقاص لغاری نے تمام ضروری کاغذات تکمیل کے بعد ہمارے حوالے کردیے ۔ ملتان سے جدہ کے لئے ہماری روانگی ہوئی جسے براستہ دبئی جانا تھا ۔ دبئی مختصر قیام تھا اور وہیں سے احرام باندھنا تھا ۔ احرام کے بعد اب خواہش بڑھتی گئی کہ جتنا جلد ہوہم مکہ پہنچ جائیں ۔ لیکن ہم نے جدہ پہنچناتھا ۔ شام ہوچلی تھی ۔ ایرپورٹ سے باہر حفیظ خان ہمارا منتظر تھا۔ وہ اپنی کار پر ہمیں مکہ میں ہوٹل تک چھوڑ آیا ۔ تمام سامان ہوٹل کے کمرے میں رکھا اور سیدھے حرم کعبہ میں داخل ہوئے ۔ جونہی پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑی تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ حدیث میں ہے کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے ۔ اللہ پاک کا بے پایہ کرم ہمیشہ شامل حال رھااس نے اپنے فضل وکرم سے نواز ا ہے ۔ بے پاں رحمتوں کے امیدوار پہلے بھی رہے اور اب بھی ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ دعائیں مانگنا بھول گئے اور پہلی نظر پر یہی شرمندگی ہورہی تھی کہ رب کا ئنات کی رحمتوں اور نعمتوں کے باوجود ہم وہ نہ کرسکے ۔ بجائے شکر ادا کرنے کے ہم نے صرف مانگناسیکھاہے ۔ خانہ کعبہ کو دیکھا تو اپنے گناہوں پر شرمندگی ہوتی رہی ۔ اپنے مالک کی بارگاہ میں اس وقت تو کچھ مانگا نہیں گیا ۔ سوائے ندامتوں کے آنسوئوں کے کچھ اور پیش کرنے اور مانگنے کے قابل نہ تھا ۔سیڑھیوں پر بیٹھے سوائے زاروقطار رونے کے اور کچھ بول نہ سکا۔ ہم نے طواف کعبہ شروع کردیا ۔ طواف مکمل ہونے کا پتہ بھی نہ چلا ۔ اسی دوران دعائیں مانگتے رہے ۔ حجر اسود کو بوسہ دینے میں ناکام رہے کیونکہ ادب کے تقاضے پاماں اور تیزی وتندی سے کسی کو تکلیف پہنچنے کا احتمال تھا ۔ حرم شریف مردو خواتین سے بھرا ہواتھا ۔ مقام ابراہیم کے قریب نوافل اداکیے ۔ آب زم زم سے خوب سیرہوئے تو صفامروہ کی جانب روانہ ہوئے تو اُدھر بھی ایک ہجوم تھا ۔ مختلف ممالک کے مسلمان مردو خواتین اپنے اپنے گروپ کے ساتھ بلند آواز سے دعائیں پڑھ رہے تھے ۔ ہمیں بھی دعائیں جو یاد تھیں وہ پڑھتے رہے اور ہر پھیرے پر خانہ کعبہ پر نظر پڑتی تو اپنے رب سے بے پایا رحمتوں اور کرم کے لیے سوالی جاتے ۔ رات کے تین بجے عمرہ مکمل کرلیا ۔ کعبہ کے سامنے آکر بیٹھ گئے ۔ اور نوافل پڑھتے رہے ۔ تہجد کی نماز پڑھی تو جی چاہتاتھا کہ یہی میری وقت گزار دیاجائے صبح کی نماز بھی وقت قریب تھا ۔ نماز فجر کی آذان ہوگئی ۔ خوبصورت اور دلنشیں لہجہ میں امام نے قرأت کی ۔ جی چاہتاتھا کہ یہی وقت تھم جائے اور تلاوت سنتے رہیں ۔ نماز فجر سے فارغ ہوئے تو اپنی ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے ۔ نماز کے وقت نکلتے اور باجماعت نماز کی سعادت حاصل ہوجاتی ۔ اُدھر جدہ میں رھائش پذیر عزیزان ملک عاشق حسین اور ملک رحمت اللہ ہوٹل تشریف لائے انہوں نے اپنے ساتھ جدہ جانے کی دعوت دی ۔ میرے دوست جو عمرہ میں میرے ہمسفر بھی تھے یہ ان کے عزیزان تھے ۔ ہم نے کہا کہ کافی تھکاوٹ ہے لیکن انہوں نے بہت اصرار کیا زیادہ دور نہیں اور آپ کو واپس ہوٹل چھوڑ جائیں گے ۔ چنانچہ مکہ سے جدہ چلے گئے ۔ ملک رحمت اللہ کی پلاسٹک بیگ بنانے کی فیکٹری ہے وھاں کا دورہ کیا ۔ پورے عمل کو قریب سے دیکھا ۔ رات کو کھانا کھایا اور ساحل سمندر پر عربی قہوہ نوش کیا اس طرح رات گئے وہ ہمیں ہوٹل پہنچاکر واپس چلے گئے ۔ اگلے روز سے عزیزی عدیل خان لغاری کا ریاض سے فون آیا اور بتایا کہ وہ رات کو مکہ پہنچ جائیں گے صبح ہم سے ملیں گے ۔ عدیل لغاری نے کھانے کا اہتمام کیا اس کے ساتھ شاہ فیصل کھوسہ اور وقاص نواز بھی ساتھ ہے جو ریاض میں ہی مختلف اداروں میں ملازمت کرتے ہیں ۔ غم روز گار بھی عجب دکھ ہے جو اپنے پیاروں سے دور رہنے پر مجبور کرتاہے رات ہوئی تو دن بھر کی مصروفیات کی وجہ سے شدید تھکان تھی ۔ رات کا آخری پہر تھا ۔ میں نے اپنے ساتھی ملک اللہ بخش سے کہا کہ کیوں نہ دوبارہ عمرے کی سعادت حاصل کریں ؟وہ اٹھ کھڑا ہوا ہم نے احرام لیے اور ٹیکسی پر بیٹھ کر مسجد عائشہ پہنچ گئے ۔ غسل کرکے احرام اوڑھا اور طواف شروع کردیا ۔ شدید تکلیف میں عمرہ مکمل کرلیا لیکن اس بار صفا اور مروہ میں چند لمحوں کے لئے تجھ جاتے لیکن خوشی اس بات کی تھی کہ ہم نے مکہ کے چار روز قیام میں دوسرا عمرہ مکمل کرلیا ۔ اللہ پاک نے یہ توفیق بخشی تو ہم اس قابل ہوئے مگر نہ بظاہر یہ انتہائی مشکل لگ رہاتھا ۔ اگلے روز ہمیں مکہ کے مقدس مقامات کی زیارت کرائی گئی ۔ جس میں منیٰ ، مزدلفہ،مقام عرفات، مسجد نمرہ جبل رحمت جنت معلی شامل ہیں ۔ زیارت جبل نور پر پہنچے اور آخر میں غار حرا کو دیکھنے کے لئے گئے لیکن اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا جب ہم اوپر تک نہ پہنچ سکے ۔ شام ہوچکی تھی ۔ قریب ہی مسجد میں نماز مغرب اداکی ۔ مسجد میں ایک بنگلہ دیشی امام تھا جن نے خوبصورت تلاوت کی جس کے سحر نے دیر تک مبہوت رکھا۔ مکہ کے قریب آکر کسی مسجد میں جانے کا اتفاق ہواتو مساجد خوبصورت اور اندر انتظامات ایسے کیے کہ خوبصورت قالینوں سے مزین امام کے لئے تمام انتظامات متیص مسجد رہائش اور حجرہ موجود ہیں ۔ مساجدمیں ٹھنڈا پانی اور کھجوروں کا خصوصی انتظام کیا جاتاہے ۔ مقامی اور عرب لوگوں کو بازاروں اور چوراہوں میں پانی کی ٹھنڈی بوتلیں تقسیم کرتے دیکھا گیا جو معمول ہے عمرہ زارین کے لئے خصوصاً انتظام ہوتے ہیں ۔ رات کو خانہ کعبہ اور مسجد الحرام سے باہر آنے والوں کو کھجوریں پیش کرتے دیکھا گیا ۔ یہ سلسلہ ارد گردکے مقامات پر دیکھا جاسکتاہے ۔ اگلے روز ہم مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے ۔