انجمن طلوع ادب و سماجی بہبود کے کارہائے نمایاں
انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کا راستہ متعین کرنا ہے۔ 1965ء کی پاک بھات جنگمیں ہر پاکستانی میں حب الوطنی کا جذبہ موجزن تھا بہادر فوجیوں کے ساتھ ساتھ عوام اپنے ملک کی حفاظت اور اس کو ترقی دینے کا عزم رکھتے تھے اس جنگ کے نتائج نے پاکستانی عوام کو اپنے ملک کو ترقی دینے اور سلامت رکھنے کا درس دیا تھا۔ روزنامہ نوائے وقت کے اداریے‘ سرراہے اور میگزین میں تحقیقی مقالہ جات نے اپنے قارئین کو حب الوطنی کا درس دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے بھی سوچا قائداعظم کے نظریہ پاکستان اور علامہ اقبال کے دئیے ہوئے درس کو ہم اپنا نہ صرف اوڑھنا بچھونا بنائیں بلکہ ان کے فرمودات کو اپنی بساط کے مطابق معاشرے میں عام کریں۔ اس مقصد کے لئے ہم نے 1970ء کے یوم آزادی کو اپنے محلے میں نہایت جوش و خروش سے منانے کے لئے انجمن طلوع ادب و سماجی بہبود کی بنیاد ڈالی۔ رضا آباد کے نوجوانوں نے ہمارا ساتھ دیا ہم نے ان تمام کے سامنے اس کے مقاصد رکھے۔ انہوں نے ان مقاصد کے حصول کے لئے عملی طورپر اس کام کو سرانجام دینے کے لئے ہماری بھرپور معاونت کی ہم جس کام کو بہت مشکل سمجھ رہے تھے۔ اہل محلہ کے نوجوانوں اور مکینوں نے اسے اتنا آسان بنا دیا کہ میرے ذہن میں جو نقشہ موجود تھا اس سے بھی بہتر اس کی تعبیر ہمارے سامنے آگئی۔ محلہ رضا آباد کے نوجوانوں نے 14 اگست 1970ء کو منانے کے لئے ایک پروگرام ترتیب دیا یہ پروگرام نہایت جوش و خروش سے منایا گیا۔ اس کے لئے ایک بہت عمدہ دفتر اور اس میں تقریبات کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جیب خرچ سے اس کو چلانے کا فیصلہ کیا گیا اس کے پہلے اجلاس میں بندے کو اس کا صدر منتخب کیا گیا۔ باقی عہدے داران اس طرح تھے جاوید اقبال بھٹی سینئر نائب صدر مہر محمد سلیم اختر نائب صدر‘ محمد اکرم جنرل سیکرٹری‘ میر محمد علیم اختر جائنٹ سیکرٹری محمد سلیم فنانس سیکرٹری ظہور حسین سیکرٹری نشر و اشاعت محمد یونس‘ محمد اقبال‘ محمد رضا شمسی‘ محمد اشفاق‘ محمد اسلم خیالی‘ مجلس عاملہ کے رکن قرار پائے۔
ادبی محفلوں کے علاوہ اس انجمن کے مقاصد میں یہ بھی شامل تھا کہ رفاعی کاموں اور کھیلوں میں بھرپور معاونت کی جائے گی۔
اس کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے تھے اس کی کامیابی اتنی شاندار تھی کہ اہل محلہ ان محفلوں میں نہ صرف شریک ہوتے تھے بلکہ دامے درمے سخنے ہماری مدد کرتے تھے۔ ‘ محلہ داروں کو اگر کسی قسم کی کوئی مشکل پیش آتی تو باقاعدہ ہمارے پاس آتے تھے ہم ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے اپنی سی کوشش کرتے اور اس میں ہمیں بہت کامیابیاں حاصل ہوسکیں انجمن طلوع ادب و سماجی بہبود کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تمام ممبران اور عہدے داران اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اہل علم جن میں پروفیسر حمید الرحمن‘ احمد رضا ایڈووکیٹ‘ حکیم محمد حسین‘ چودھری محمد حسین پٹواری‘ والد محترم قاری وضاحت حسن بابا محمد وارث او دیگر افراد کی ہمیں معاونت حاصل تھی ایک سال کے اندر اندر اس انجمن نے علاقے میں اپنی دھاک بٹھا دی اس کے رفاعی کاموں کے علاوہ فٹ بال‘ بیڈمنٹن اور کبڈی کے میچ بھی کرائے جانے لگے۔ لوگ اس میں اتنی دلچسپی لیتے تھے کہ باقاعدہ اس کے پروگرام ہم سے پوچھے جاتے تھے۔ جاوید اقبال بھٹی‘ محمد اکرم چودھری‘ ظہور حسین ‘ میر محمد سلیم اختر محمد سلیم ‘ میر محمد علیم اختر اس کے ہی اراکین تھے۔ محمد اسلم خیالی اپنی مزاحیہ شاعری سے اس کے اجلاسوں کی رونق کو دوبالا کرتے۔ ہماری انجمن کے رفاہی اور ادیب پروگراموں نے جب کافی شہرت حاصل کر لی تو اس کو آگے بڑھانے کا کام کیا گیا لیکن شومئی قسمت 1971ء کی جنگ شروع ہو گئی فیصلہ کیا گیا تمام عہدے داران اور اراکین ملک کو دشمن سے بچانے کے لئے قومی رضاکار تنظیم کے پلیٹ فارم سے حصہ لیں گے۔ محمد رضا ایڈووکیٹ نے ہماری ساری انجمن کو رضاکار تنظیم کا رکن بنا دیا جنگ کے دوران شہری دفاع کی تربیت دی گئی دشمن کے حملوں سے ملک کو کس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اس دوران مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی نے اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی بھٹو کی پارٹی نے عوام کو سبز باغ دکھائے جبکہ شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش میں چھ نکات کو بنیاد بنا کر الیکشن میں قومی اسمبلی کی تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی۔
ماہر تعلیم اور جاوید اقبال کے سسر محمد اسماعیل نور نے قرآن مجید فرقان حمید کا منظوم ترجمہ مسجد رحمانیہ میں لوگوں کے سامنے پیش کیا بندے نے بھی اپنی شاعری میں سوشلزم کی مخالفت میں نظم لکھی جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
دیکھ لو جھوٹ کی انتہا دیکھ لو
سوشلسٹوں کی اب ابتدا دیکھ لو
روٹی کپڑا ملے گا سبھی تو گئے
وعدے کتنے تھے سب خوشنما دیکھ لو
شومئی قسمت پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش کے نام سے نام نہاد آزادی حاصل کر لی۔ پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے پر انجمن طلوع ادب پر بھی بہت اثر پڑا اس کے کام میں وہ جوش و خروش نہ رہا لیکن ہمارے عہدے داران اور اراکین نے ہمت نہ ہاری اوررفاعی کام جاری رکھے لیکن کالج اور یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ملازمت اور روزگار کے سلسلے میں رضا آباد کو خیرباد کہہ دیا۔ آج پچاس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اس کے اراکین اپنی اپنی جگہ اس کے مقاصد کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں‘ ہمارے معاونین اور کچھ عہدیداران اس دنیا سے جا چکے ہیں جن میں محمد اقبال‘ محمد سلیم‘ چودھری محمد یونس‘ محمد رضا شمسی‘ محمد اشفاق‘ ظہور حسین کا چھوٹا بھائی اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ملک و قوم کے لئے ان کی بے لوث خدمات کا اجر عظیم عطا فرمائے۔