امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کے دورہ پر جس انداز میں پاکستان کی تعریف کی ،وہ ہندووں سے ایک لمحہ بھی برداشت نہیں ہوئی ۔ آر ایس ایس کے لوگوں نے اس کا غصہ نہتے مسلمانوں پر نکالتے ہوئے ،انھیں تشدد کر کے قتل کیا ۔ان کی املاک کو آگ لگائی گئی ،عمارتوں کو منہدم کیا گیا ۔یہ پہلی بار نہیں ہوابلکہ اس سے قبل بھی بھارت میں ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔19مارچ2000 کو امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میںجنوبی ضلع اسلام آباد کے چھٹی سنگھ پورہ گاوں میں بھارتی فوج کی وردی میں ملبوس مسلح افراد نے سکھ برادری کے 35 سے زائدافراد کا قتل عام کیا تھا۔بعد ازاں کور کماندڑ جنرل مکرجی کی رپورٹ نے پہلگام میں ہندو زائرین کی ہلاکتوں کیلئے نیم فوجی تنظیم سی آر پی ایف اور پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے، کہ آخر بھارتی حکومت ان سانحوں میں ملوث افراد کو بے نقاب کیوں نہیں کرتی۔اب بھی جب کوئی بڑی غیر ملکی شخصیت خاص طورپر امریکہ کی کوئی اعلیٰ شخصیت بھارت کا دورہ کرتی ہے تووادی کشمیر کے سکھ اس خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔اب بھی پورا بھارت ٹرمپ کے دورے کی تیاری میں جتا رہا اور آر ایس ایس کے لوگوں نے اس بار مسلمانوں کو نشانے پر لیا ۔
آج پورے بھارت کے اندر گاو رکھشا کے نام پر،مذہب کے نام پر جس طرح قتل عام کیا جا رہا ہے، بڑا افسوس ناک ہے ۔63 ہولناک واقعات میں آر ایس ایس کے ہجوم نے نہتے اور بے گناہوں کا قتل عام کیا ہے جس میں سے62 سانحے مودی سرکار آنے کے بعد ہوئے جن میں 128 افراد کو قتل کیا گیا ۔جس میں سے 124 مسلمان ہیں جبکہ 4 دلت ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ گاو رکھشا کے نام پر کسی کی (ہتیا) موت برداشت نہ کرنے کا بیان دیکر پردھان منتری مودی فارغ ہو جاتے ہیں، یہ کافی نہیں ہے بلکہ ان افراد کو سزا دی جائے جو ایسے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں ۔
بھارت میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ چونکہ یہ فسادات یا تو انتظامی نااہلی کے سبب ہوتے ہیں یا پھر حکومت کی پشت پناہی سے اس لیے فسادیوں کیخلاف عموماً کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ہزاروں انسانوں کے قاتل سیاسی تحفظ اور پشت پناہی کے ساتھ بے خوف و خطر گھوم رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فسادات میں بڑا نقصان ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کا ہی ہوتا رہا ہے۔ گجرات کے فسادات بھارت کی تاریخ میں پہلے ایسے فسادات تھے جن کی جیتی جاگتی خوفناک تصاویر لوگوں نے ٹیلی ویژن کے توسط سے پہلی بار براہِ راست دیکھیں۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات اس سے کہیں بڑے پیمانے پر ہوئے تھے جس میںفسادیوں نے انسانیت کیخلاف جرائم کی نئی تاریخ لکھی تھی لیکن چار ہزار انسانوں کے قتل اور دس ہزار سے زیادہ انسانوں کو مجروح کرنے کے جرم کی پاداش میں شاید دس افراد کو بھی سزا نہیں ہوئی۔گجرات میں بھی یہی صورتحال تھی۔ متاثرین نے حقوقِ انسانی کی تنظیموں کی مدد سے رپورٹس درج کرائیں لیکن پولیس نے اس طرح ان معاملوں کی تفتیش کی کہ ایک کے بعد ایک سارے کیس ڈھے گئے۔ بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت سے اسکے مقررہ افسروں نے دوبارہ جانچ کی اور مقدمات میں سینکڑوں قصورواروں کو سزائیں ملیں۔ ان میں مودی کی ایک خاتون وزیر بھی شامل تھی لیکن بدقسمتی سے ان تمام افراد کو رہا کر دیا گیا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں عالمی برادری کو اس خطرے سے آگاہ کیا تھا لیکن عالمی برادری نے اس پر کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ پاکستان شروع دن سے ہی مذاکرات کا حامی ہے لیکن مودی سرکار ہماری اس امن کی خواہش کو شاید ہماری کمزوری سمجھ رہی ہے ۔ہم نے ہر بار لڑائی ختم کر کے تجارت کو فروغ دیکر مسائل حل کرنے پر زور دیا ۔کیونکہ ہر حکومت کی نیک نامی صرف اور صرف عوامی فلاح کے کاموں میں ہے ۔مودی کو دہلی کے وزیر اعلیٰ سے ہی سبق سیکھ لینا چاہیے جس نے خدمت کے بل بوتے پر تیسری مرتبہ دہلی کا اقتدار حاصل کیا ہے ۔
دہلی میں فسادات کرنیوالوں کی تصاویر میڈیا کے ذریعے سامنے آچکی ہیں مودی ان ملزمان کو قرار واقعی سزا دیکر اپنے ملک میں امن سکون قائم کریں ۔اگر اب کی بار بھی مودی نے مصلحت دکھائی اور ملزمان کو سزا نہ دی تو پھر بھارت کا اللہ ہی حافظ ہے ۔مذہبی فسادات بھارت کی رنگ برنگی جمہوریت کا بد ترین کلنک ہیں۔ پچھلے 30 برس سے ہزاروں قاتل سیاسی پشت پناہی، تحفظ اور قانون سے ماورا ملک کے مختلف علاقوں میں بے خوف خطر سرگرم ہیں اور انھیں پھر کسی دلی ،گجرات اور مظفر نگر کی تلاش ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024