مغلوں نے برصغیر پر تقریباً چھ سات سو سال حکومت کی۔ لیکن نہ تو انہوں نے اسلام کی کوئی خدمت کی اور نہ ہی اپنے تخت و تاج کو دوام بخش سکے۔ہمیشہ مختلف ریاستوں میں بٹے ہندوستان کے راجائوں، مہاراجائوں کی طرف سے شورشوں اورسازشوں کی سرکوبی میں مصروف رہے۔ ان میں سے کچھ حکمران شراب اور شباب کے چکر میں اپنا وقت گزار کر آخری منزل پر جاپہنچے اور کچھ شعر و ادب میںمشغول ہوکر حکومتی امور سے غافل ہو گئے۔ ان حالات کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے انگریز مختلف حربوں، چالوں، سازشوں اور مقامی ہندو آبادی کے تعاون سے ڈپلومیسی اور تجارت کی آڑ میں رفتہ رفتہ ہندوستان پر قابض ہو گئے۔ سونے کی چڑیا کہلانے والے ملک کے ذرائع سے اپنے ملک کو مکمل مستفید کیا۔مسلمان بادشاہوں کے مخالف لوگوں کے ہاتھ مضبوط کئے اور مقامی افراد کے بل بوتے پر فوجیں تیار کیں اور دونوں عالمی جنگوں میں ان کو جھونک دیا۔
اندرونی طور پر ہندو مسلم دشمنی، صوبہ جاتی چپقلش اور مسلمانوں کی فرقہ پرستی کی آگ کو پٹرول ڈال کر بجھاتے رہے۔ ہندوستان میں انگریز کے آنے سے پہلے ہند میں سو فیصد لٹریسی ریٹ تھا اور مسجد ناصرف عبادت گاہ تھی بلکہ شادی گھر، مدرسہ، اجتہاد، پنچایت اور عدالت کا مقام بھی تھی۔ چونکہ انگریز نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا۔ اندریں حالات ہندو نے انہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلا کر اپنی قوم کو فائدہ پہنچایا اور انگریز دشمنی کا سارا محور مسلمانوں کو بنا دیا۔اس پس منظرمیں جنگی آزادی ہو یا خلافت تحریک لاتعداد قابل، دین دار، پڑھے لکھے اور جیّد علماء تختہ دار پر لٹکا دئیے گئے۔ انگریز کی دشمنی کا ٹارگٹ مسلمان تھے۔اُدھر مسلمانوں کی تقسیم در تقسیم کے ساتھ ان لوگوں نے ایک بہت بڑا گروپ چاپلوسوں، جی حضوریوں، وطن دشمنوں، اسلام دشمنوں اور اپنے وفاداروں کا پیدا کیا۔ انگریزوں کی فوج میں بھرتی کروایا اور انہیں گھوڑے اور خوراک سپلائی کی۔ مقامی آبادیوں پر جبر، ظلم اور ناروا سلوک روا رکھا تاکہ وہ کسمپرسی کی زندگی گزاریں اور عقل و سوچ سے بے بہرہ رہیں۔ اسکے عوض میں انگریز سرکار سے بڑی بڑی جاگیریں انعام پائیں اور انگریز افسروں کو بلا کر اپنی چاپلوسی اور غلامانہ ذہنیت کا اظہار کیا۔ اگر آپ پنجاب چیفس کی کتابیں پڑھیں تو ان کی کرتوتیں، عمل، کردار، لکھے گئے خطوط اور پیش کئے گئے سپاسنامے پڑھ کر قاری کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ انگریزوں کی غلامی سے آزادی اور مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن ’’تشکیل پاکستان‘‘ کی تحریک میں قائداعظم کی مخالفت میں ان وڈیروں، جاگیرداروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ہندوئوں کا ساتھ دیکر انکے ہاتھ مضبوط کئے۔ اگر ہمارے مسلمان وڈیرے، زمیندار اور مذہبی اکابرین قائداعظم کا ساتھ دیتے اور ان کے ہاتھ مضبوط کرتے تو آج نہ کشمیر جاتا، نہ حیدر آباد اور نہ جونا گڑھ۔ان سب کے باوجود پاکستان کا بننا اور اس کا قائم رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم سے زندگی نے وفا نہ کی اور پھر لیاقت علی خان کا پتہ ان پاکستان دشمنوں نے صاف کر دیا اور اپنے خاندانی اقتدار کو ہمیشہ کیلئے دوام بخش دیا۔ نہ اخلاقیات، نہ اصول، نہ حب الوطنی، نہ کردار۔ راتوں رات ریپبلکن بن گئے۔ کنونشن لیگی ہوگئے۔ جونیجو لیگ آگئی۔ ق لیگ جوان ہوگئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔ ن لیگ میں آگئے۔ PTI میں شامل ہوگئے۔ آگے کیا ہو گا۔ پچھلا دروازہ انہوں نے کبھی بند ہی نہیں کیا۔ ان ملک دشمنوں سے قوم کو آزاد کروانے کیلئے انکے بزرگوں کی ماضی کی جھلک سے روشناس کروانے کیلئے بہتر ہوگا کہ پنجاب چیفس کی کتاب کو نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ نئی نسل کو ان کا حقیقی چہرہ پہچاننے میں دشواری نہ ہو۔اُدھر ہمسائیہ ملک میں جن لوگوں نے آزادی کی تحریک چلائی ۔ آزادی کے بعد وہی لوگ برسر اقتدار آئے۔ ان لوگوں نے خلوص کے ساتھ جمہوریت کی جڑیں مضبوط کیں۔ پھرنریندر مودی نے آکر اس فلم میں کچھ ایسے ڈرائونے سین ڈالے کہ اب وہ پلاٹینم جوبلی فلم ڈبہ فلم ہو گئی ہے۔ اب یہ اقلیتیں روتی پھر رہی ہیں، چیخ و پکار کر رہی ہیں، انکی املاک جلائی جا رہی ہیں اور عصمتیں لوٹی جارہی ہیں۔اُدھر 80 لاکھ لوگوں کو گھروں میںنظربند کرکے ہر قسم کی خوراک اور دوائیوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ شہادتیں روز کا معمول بن گئی ہیں۔
ہند کی لیڈرشپ نے ہندوستان کو ایک کنواری دوشیزہ بنائے رکھا۔ جس کا دل جیتنے کیلئے روس اور امریکہ بیشمار جتن کرکے ہندوستان کو بڑے بڑے پراجیکٹ دیکر خوش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ تھی کامیاب پالیسی۔ البتہ ٹرمپ صاحب نے ایک بات سے دشمنوں کے سینوں پر مونگ دل دی ہے کہ اب امریکہ پاکستان کے بہت قریب ہے اور مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہئے۔ عملی طور پر مستقبل میں کسی اچھے کی اُمید تو نہیں لیکن وقتی طور پر ٹرمپ نے خوش کر دیا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024