16 سے 21 فروری 2020 ء تک پیرس میں منعقدہ ’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ کے اختتامی اجلاس میں کئے فیصلے کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کو GRAY LIST سے نکلنے کیلئے ’گو مزید 4 ماہ کا اضافی وقت دیا گیا ہے تاہم بنظر غائر اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی اس بڑے عالمی اجلاس میں جس میں 250 ممالک سے 8 سو مندوبین نے شرکت کی ’’گرے لسٹ‘‘ کے حوالہ سے برطانوی حلقوں میں اسے ایک کامیابی قرار دیاجا رہا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پاکسان نے 27 نکات میں سے 14 پر عملدرآمد کیا جبکہ ’’گرے لسٹ‘‘ سے نکلنے کیلئے تمام تر نکات پر عمل پیرا ہونا ناگزیر تھا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں دیگر 13 اقدامات پر عملدرآمد کیلئے پاکستان کو ایک اور مہلت دیدی گئی ہے؟ جس کیلئے جون تک ہر حال میں اقدامات کرنا ہونگے۔ ورنہ ایف ۔ اے ۔ ٹی ۔ ایف پاکستان کے ساتھ TRANSACTION کے سلسلہ میں مزید سخت احکامات جاری کر سکے گی اسی طرح جن و خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے پاکستان کو دہشت گردی ، منی لانڈرنگ، ملوث افراد کی دی گئی سزائیں جرمانے، تحقیقاتی مراحل کی رپورٹس، ممنوعہ افراد اور وہ تنظیمیں جو منی لانڈرنگ کی سہولتیں استعمال کر رہی ہیں انکے استعمال کے مکمل روکنے کے عملی شواہد کے ساتھ آئندہ جون کو اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کرنا ہو گی۔
’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا نکات کے حوالہ سے گو پاکستان اپنی جامع حکمت عملی پر عملدرآمد کر رہا ہے مگر جن امور پر ابھی عملدرآمد نہیں ہوا ان پر جون تک اقدامات کرنا ضروری ہو گا۔ معاملہ چونکہ سنگین نوعیت کا ہے اس لیے جون 2020 ء تک دئیے ’’ایکشن پلان‘‘ پر پاکستان کو اب ہر حال میں عمل پیرا ہونا پڑیگا۔ 8 سو مندوبین کے اس اجلاس میں ’’بھارت‘‘ نے ازلی دشمن ہونے کا ایک بار پھر ثبوت دیا۔ بھارتی مندوبین نے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے پاکستان کو ''BLAKE LIST'' میں شامل کروانے کی بھرپور کوشش کی مگر منہ کی کھانی پڑی۔ پاکستان کے دوست ممالک نے پاکستان کے 14 اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے بھرپور تعاون کیا:
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جون کے اجلاس میں پاکستان ’’گرے لسٹ‘‘ سے باہر آ جائے گا مگر! مجھے یوں لگتا ہے کہ پاکستان کو ایک ’’نارمل ملک‘‘ کا دوبارہ ’’سٹیٹس‘‘ حاصل کرنے کیلئے وقت ضائع کئے بغیر بہت زیادہ کام کرنا ابھی باقی ہے؟؟ہماری حکومت منہ زور بیورو کریسی اور متعلقہ ایکٹ میں ترامیم کرنے کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے وزیراعظم عمران خان کو اس پلان ’’کوازسرنو سٹڈی کرنا ہو گاکہ ’’لفظ مہلت‘‘ کے ہم مزیدمتحمل نہیں ہو سکتے؟؟ملکی اور قومی مسائل میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے تاہم مجموعی طور پر قوم بدستور مسائل کا شکار ہے۔ تعلیم اور صحت کا وہ معیار تا ہنوز قائم نہیں ہوسکا جو ہر دیہی اور شہری شخص کا بنیادی حق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کاغذات میں صحت کے حوالے سے تمام تقاضے پورے کئے جاچکے ہیں۔ یہ قابل ندامت نہیں تو اور کیا ہے کہ ڈینگی اوربائولے کتوں کے کاٹنے پر سینکڑوں واقعات کے باوجود ہماری صوبائی حکومتوں کے پاس مبینہ طور پر ادویات ہی دستیاب نہیں۔
Hepatitisبی اور سی اور ایچ آئی وی اب تک ہزاروں افراد کی جان لے چکی ہے، اسے حسن اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ اگلے روز لندن ہائی کمشن میں ہمارے ہائی کمشنر محمد نفیس زکریا نے اسی حوالہ سے برٹش پاکستانی اور پاکستانی ڈاکٹروں اور کنسلٹنٹس کے اشتراک سے پاکستان میں قائم کی جانے والی ’’The Health Foundation‘‘ جو ایک بین الاقوامی تنظیم کے طور پر کام کررہی ہے، اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ ٹی ایچ ایف ملک کے دیہی اور شہری علاقوںمیں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے خاتمہ کیلئے صبح و شام بھرپور اقدامات کر رہی ہے۔ برطانوی پاکستانیوںکا بھی یہ قومی فریضہ ہے کہ اس تنظیم کے استحکام اور متاثرہ افراد کیلئے دی جانے والی مفت ادویات اور دیگر سروسز کیلئے مالی معاونت کریں تاکہ اس موذی مرض کا خاتمہ کیا جاسکے۔ہیلتھ فائونڈیشن کے چیئرمین سعید اللہ والا کا کہنا تھا کہ 2007ء میں اس فائونڈیشن کا قیام پاکستان میں عمل میں آیا۔ فائونڈیشن ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کے علاج اور اس موذی مرض سے بچائو کیلئے رضاکارانہ مفت خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ اب تک پانچ ہزار مریضوں کا مکمل علاج اور 6لاکھ 50ہزار مریضوں کو ہیپاٹائٹس سے بچائو اور آگہی کے بارے میں عملی اقدامات کرچکے ہیں۔
ہیلتھ فائونڈیشن کی انتظامیہ نے مختلف برطانوی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ اس موذی مرض کے خاتمہ کیلئے وہ جہاں تک ممکن ہو سکے مالی تعاون کرے تاکہ ٹی ایچ ایف مفت علاج کو مزید بڑھا سکے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024