بھارت میں گذشتہ چند روز سے مسلمانوں کو ہدف بنا کر قتل عام کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ مساجد پر حملے ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کے لیے زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ تیس سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ سینکڑوں زخمی ہیں۔ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ہر دن ایک نئی مصیبت لے کر آتا ہے۔ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ خطے کے مسلمانوں کو انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔
نئی دہلی میں شہریت بل کے خلاف جاری مظاہروں میں ہونے والے فسادات اور تشدد میں زخمی اور قیمتی جانوں کا ضیاع انتہائی تشویشناک ہے۔جعفر آباد، موج پور، بابر پور، گوکل پوری، جوہر انکلیو اور شو وہار میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔ نئی دہلی کے وزیرِ اعلی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے فسادات سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ دوسری طرف کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے نئی دہلی حکومت کو خاموش تماشائی قرار دیا ہے۔
یہ مظاہرے گذشتہ برس سے جاری ہیں جب ستمبر میں بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا تھا۔ اس متنازع قانون کے تحت بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والوں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ اس قانون کی منظوری کے بعد بھارت میں بڑی تعداد میں موجود بنگلہ دیش کے مہاجرین کی بیدخلی کا خطرہ بھی موجود ہے۔ اس متنازع شہریت قانون کو بھارت کی کئی ریاستوں نے نافذ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بھارتی ریاست کیرالہ نے اس قانون کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔اس مسلم دشمن قانون کے خلاف ملک گیر مظاہروں، مسلمانوں کو دیوار سے لگانے اور بھارت میں بسنے والے دیگر مذاہب کے افراد نے بھی اپنا مستقبل خطرے میں دیکھتے ہوئے مظاہروں میں بھرپور انداز میں شرکت کی ہے۔ ان مظاہروں میں انتہا پسند ہندوؤں نے مساجد کو شہید کیا ہے۔ کسی بھی ملک میں مذہبی آزادی بنیادی حق ہے اور عبادت گاہوں کا تحفظ حکومت کا فرض ہے لیکن بھارت میں حکومتی سرپرستی میں مساجد کا شہید کیا جانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ نریندرا مودی کی حکومت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے خلاف اقدامات اٹھا رہی ہے۔ یہ تمام قوانین اور فیصلے مذہبی تعصب اور اسلام دشمنی میں کیے جا رہے ہیں اب بھی کسی کو شبہ ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
بھارت نے پانچ اگست دوہزار انیس کو کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا اس کے بعد سے آج تک کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈاون جاری ہے۔ کشمیر کے اسی لاکھ مسلمانوں کے لیے زندگی کو انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ وہاں رابطے کے ذرائع بند ہیں، معلومات کے ذرائع منقطع ہیں۔سنہ دوہزار انیس کے اعدادوشمار کے مطابق انڈیا نے گذشتہ برس سب سے زیادہ دفعہ انٹرنیٹ سروس معطل کی ہے۔دنیا کے مختلف ممالک میں ایک سو اکیس بار موبائل ڈیٹا اور براڈ بینڈ سروسز بند کی گئیں ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ سڑسٹھ فیصد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دیکھنے میں آئی ہیں۔
دوہزار سولہ میں اقوام متحدہ نے انٹرنیٹ تک رسائی کو انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کیا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اسے پائیدار ترقی کے اہداف میں بھی شامل کیا گیا تاہم بھارت نے ہر قسم کے قوانین کی دھجیاں بکھیری ہیں۔ کشمیر کے معاملے پر تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کا مذاق بنایا گیا ہے۔ پانچ اگست سے دوران ساری دنیا میں بھارت کے ان مسلم دشمن اقدامات پر آواز بلند کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین میں بھی میٹنگز ہوئیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی مظالم کو بینقاب کیا اتنی واضح تقریر اور نشاندہی کے باوجود عالمی امن کے ٹھیکیداروں نے کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔
کشمیر میں ہونے والے مظالم کے بعد نریندرا مودی کی جنونی اور انتہا پسند حکومت نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کو نئے مرحلے میں داخل کرتے ہوئے شہریت قانون منظور کیا اور اب دہلی میں ہونے والے مظاہرے اور انسانی جانوں کا ضیاع بے معنی نہیں ہے یہ سب اقدامات صرف اور صرف اسلام مخالف ہیں۔ تعصب پسند ہندوؤں کا ہدف صرف اور صرف لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے ہیں۔ یہ جنگ اور لڑائی نئی نہیں ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوؤں کی اسی مسلم دشمنی کو بھانپتے جانچتے ہوئے ہی دو قومی نظریے کو پیش کیا اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کی جدوجہد کی اور چودہ اگست کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ آج بھارت کے مسلمان یقیناً اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہوں گے کیونکہ ان کے آباؤ اجداد نے پاکستان آنے کے بجائے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا اور آج بھارت میں رہنے والے مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ محمد علی جناح کا پیغام ٹھکرا کر کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ بھارت میں ہر جگہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نریندرا مودی کی حکومت کے مظالم کو روکنے کے اگر عالمی طاقتوں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس مسلم دشمنی کی آگ سے کسی کا محفوظ رہنا مشکل ہو گا۔ یہ آگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے کیونکہ بھارت نے یہیں نہیں رکنا انہوں نے آج یا کل پاکستان کو نشانہ بنانا ہی بنانا ہے یا پھر انہوں نے تمام مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دینا ہے۔ پاکستان کب تک کشمیریوں کے ساتھ ہونے والا ظلم برداشت کر سکتا بھارت کے آرمی چیف تو آزاد کشمیر کو بھی نشانہ بنانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس صورتحال میں جب پاکستان کے پاس حتمی جواب دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا تو پھر ایک تباہ کن جنگ کا آغاز ہو گا اور اس تباہ کن جنگ کے نقصانات سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ مسلم دنیا کے لیے بھی وقت ہے کہ جاگ جائے۔ اگر کوئی بھی مسلم ملک مالی مفادات کی وجہ سے مساجد کے شہید ہونے، بے گناہ مسلمانوں کا خون بہنے پر خاموش رہے گا تو وہ عذاب الہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ ہندوؤں کی دشمنی مسلمانوں سے نہیں اللہ تعالیٰ سے ہے۔ وہ اللہ کے انکاری ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کو ماننے والوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اگر مسلم دنیا اس بڑی حقیقت سے آنکھیں چرا رہی ہے تو ایسے حکمران اپنی دنیا و آخرت دونوں خراب کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش رہنے والے مسلم دنیا کے مالدار اور طاقتور حکمران یہ مت بھولیں کہ طاقت، اقتدار اور اختیار امانت ہے جسے جتنی بڑی سلطنت ملی ہے جتنی طاقت ملی ہے اس پر ذمہ داری بھی اتنی بڑی ہے۔ جاگ جائیں اس سے پہلے کہ یہ مذہبی جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے۔۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024