یہ نتیجہ میرے ذہن کی اختراع نہیں بلکہ بھارتی ٹی وی چینلز پر رونا دھونا جاری ہے کہ بھارت تو پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا چکا تھا مگر ہوا اس کے الٹ۔ بھارت کی سرزمین پر کھڑے ہو کر دنیا کی واحد سپر پاور کے صدر نے کہا کہ پاکستان سے امریکہ کے اچھے تعلقات استوار ہیںاور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان میرے اچھے دوست ہیں۔ جب بھارتی ٹی وی چینلز پر کوئی بھی تجزیہ کارسے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا ہوا۔ اس سے تو پاکستان کو اور شہہ ملے گی تو تجزیہ کار آگے سے کہتا ہے کہ اینکر صاحبہ، مجھ پر کیوں برس پڑیں، پوچھئے ٹرمپ صاحب سے جن کے منہ سے یہ باتیں نکلیں۔
ٹرمپ کے ان ریمارکس پر بھارت سٹپٹا اٹھا ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت کو تین بلین ڈالر کے اپاچی ہیلی کاپٹر مل گئے ہیں مگر یہ تو بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کے لئے ہیں۔ اس دفاعی سودے کے علاوہ بھارت کو ٹرمپ سے کچھ نہیں ملا بلکہ ٹرمپ نے صاف صاف کہا کہ امریکہ اس وقت تک بھارت کے ساتھ تجارتی حجم نہیں بڑھا سکتا جب تک آپ ہماری اشیاء پر بھاری ٹیکس واپس نہیں لیتے۔ یہ کورا جواب ٹرمپ نے کئی بار دیا اور اس وقت بھارتی حکمرانوں اور سفارت کاروں کے منہ دیکھنے والے تھے۔ ان پر زردی چھا گئی تھی۔ بھارت کی کوشش تو یہ تھی کہ پاکستان کو تنہا کرے مگر وہ خود تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں اضافے کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔میںمانتا ہوں کہ بھارت نے پاکستان کو دنیا سے کاٹنے کے لئے کشمیر میں آتنک واد کا شور مچا کر ابتدائی مرحلے میں کامیابی حاصل کر لی تھی اور ادھر امریکہ بہادر ہر تیسرے ہفتے ڈو مور کا راگ الاپ رہا تھا، پاکستان کا دماغ چکرا کر رہ گیا تھا کہ ا س دو طرفہ پروپیگنڈے کا مقابلہ کرے تو کیسے کرے۔ خدا کا کرنا ہے کہ پاکستان کو عمران خان کی صورت میں ایک ایسالیڈر مل گیا جو ابتدائی روز سے وار آن ٹیرر کے خلاف ہے۔ اس نے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف جلو س نکالے اور وزیر اعظم بننے کے بعد اس نے ایک بار نہیںبار بار کہا کہ پاکستان نے امریکی جنگ میںکود کر غلطی کی۔ اب جو وزیر اعظم اپنی زبان سے کہہ رہا ہو کہ امریکی جنگ لڑنا ہماری غلطی تھی تو امریکی حکومت اس سے ڈو مور کا مطالبہ کیسے کرتی۔اس وزیر اعظم کے سامنے امریکہ کی ایک نہ چل سکتی تھی تو اب پاکستان کو تنگ کرنے کے لئے امریکہ کے پاس بھارتی ہتھیار باقی رہ گیا تھا کہ پاکستان آتنک واد پال رہا ہے۔ مگر عمران کاا س مسئلے پر بھی ذہن بڑا کلیئر تھا۔ اس نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس نے فوج کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیاا ور ان تنظیموں پر دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ حقیقی طور پر پابندیاں عائد کر دیں جن کو بھارت جہادی لشکر کہتا تھا۔ جب یہ سب کچھ ہو گیا تو بھارت کے پاس ایک پلیٹ فارم اور بھی تھاا ور یہ تھا ،ایف اے ٹی ایف کا۔ جسے یواین او کا چھاتہ میسر تھا اور بھارت بھی اس کاایک رکن تھا۔ اس ادارے کے ذریعے بھارت نے بہتیری کوشش کر دیکھی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جائے مگر ایک طرف چین اور روس پاکستان کے ساتھ تھے اور دوسری طرف خود عمران خاںنے بڑی کڑی پابندیاںلگا دی تھیں سو بھارت ہاتھ ملتا رہ گیا۔ پاکستان ابھی تک گرے لسٹ میں ہے مگر بھارت اسے بلیک لسٹ میںشامل نہیں کروا سکا۔ عمران خان کے بارے میں دنیا کو یہ یقین ہے کہ وہ دکھاوے کی ڈپلومیسی اختیار نہیں کرتا۔ ڈبل گیم نہیں کھیلتا۔ اس کے جو دل میں ہوتا ہے، منہ پر آجاتا ہے۔یہی وجہ سے کہ پاکستان ا ور امریکہ کے مابین تعلقات کی سرد مہری کے باوجود صدر ٹرمپ ہر جگہ پاکستان کا ڈھول پیٹ رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ ایساکرتا ہی رہے گا خواہ بھارت یا کسی ا ور کو کتنی ہی مرچیں کیوں نہ لگیں۔ عمران خان نے بڑی تیزی مگر خاموشی سے سفارت کاری کے محاذ پر کام کیا۔ سعودی عرب نے خواہ پاکستان کو چند ارب دیئے اور بھارت کو سات سو ارب دیئے ۔ عرب امارات نے خواہ مودی کو اپنا اعلی ترین سول ایوارڈ بھی دے ڈالا مگر عمران خان نے سعودی عرب، قطر ، بحرین اور امارات سے متوازن تعلقات قائم رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ چین تو پاکستان کا شیدائی ہے اس کے لئے عمران خان کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑاا ور بھارت کے لئے بھی چین پر اثر انداز ہونا ممکن نہ تھا اس لئے پاکستان کو خطے میں دوستوں کا ایک وسیع حلقہ میسر رہا جس پر بھارت بوکھلایا ہوا ہے۔بھارت کی مزید شامت یہ آئی کہ عین ٹرمپ کے دورے میں دلی خون میں نہا گیا ۔ چوبیس لاشیں تو حکومت مانتی ہے مگر کتنی لاشیں غائب کی گئیں ۔ ان کا حساب کون جانتا ہے۔ دلی کے ہنگاموں میں بھارتی حکومت کی انتظامی مہارت کا پول بھی کھل گیا۔ سونیا گاندھی نے وزیر داخلہ امت شا کاا ستعفی مانگ لیا ہے۔ سونیا گاندھی کے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ جب ایک ہزار افراد دہلی میںگھائل ہو گئے اور گلی گلی آگ لگی تو مودی کہاں چھپا ہوا تھا۔ اس کا وہ دو تہائی کا اکثریتی مینڈیٹ کہاں سو رہا تھا۔
بھارت کو یہ دھچکے اسوقت لگے جب پاکستان چھبیس اور ستائیس فروری کی فتح کا جشن منانے کی تیاریاں کر رہا تھا۔کہتے ہیں مصیبت تنہا نہیں آتی۔ بھارت کی بد قسمتی دیکھئے کہ دلی میں ایک ہیڈ کانسٹیبل مارا گیا۔ نام تھا اس کا رتن لال ۔ اسے شہید کا درجہ دیا گیا۔ اس کے خاندان کوکروڑوں کی امدادملی مگر جب بھارتی ٹی وی اسکرینوں پر رتن لال کی تصویر اجاگر کی گئی تو ا سکی مونچھیںہو بہو ابھی نندن سے ملتی تھیں۔ ایک سال کے بعد بھارت کو ایک اور ابھی نندن کا چرکہ سہنا پڑا۔
ٹرمپ نے بھارت میں پاکستان کے حق میں جو ترپ کا پتہ پھینکا ،اس کے بعد بھارت خود اپنے آپ کو تنہا محسوس کررہا ہے، ٹرمپ نے اگر یہ کہہ دیا کہ پاکستان نے آتنک واد پر قابو پانے کے لئے اطمیان بخش کاروائی کی ہے تو اب ا س مسئلے کو اچھالنا بھارت کے لئے ممکن نہیں رہا۔ اور بھارت پہلے دنیا کو یہ سمجھائے کہ ٹرمپ کی موجودگی میں نئی دہلی کے گلی کوچوں میں آتنک واد کیوں ہوا، اس پربھارتی حکومت نے قابو کیوںنہ پایا ۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آتنک واد کی جڑ تو خود بھارت ہے۔بھارت کی حالت کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی ہے۔ اور بھارت کی تنہائی کا عالم یہ ہے کہ دنیا کے کسی کونے سے دلی کے فسادات پر ہمدردی کی آواز سنائی نہیں دی۔آج ہماری افواج ستائیس فروری کی فتوحات کا جشن منا رہی ہیں اور وزیر اعظم نئے سفارتی معرکے سر کرنے قطر میں ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024