جمعۃ المبارک3؍ رجب المرجب ‘ 1441ھ ‘ 28 ؍ فروری 2020 ء
کرونا کا خوف یا بلیک مافیا حفاظتی ماسک مہنگے ہو گئے
ناں ناں کرتے کرتے بالاخر کرونا کا رونا دھونا پاکستان میں داخل ہو ہی گیا۔ خدا خیر کرے۔ اب تھرتھلی تو مچنی ہی ہے۔ محکمہ صحت اپنا راگ سنا رہا ہے کہ انتظامات مکمل ہیں۔ ہسپتال والے اپنا دکھڑا سنا رہے ہیںکہ ہمارے پاس مکمل سامان میسر نہیں۔ عوام کا خون خشک ہو رہا ہے کہ اس بلا پر کیسے قابو پایا جائے گا۔ میڈیا والے حسب توفیق حفاظتی تدابیر اور انتظامات کے حوالے سے برابر خبردار کرتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں جب چین سمیت کئی ممالک میں جہاں اس نامراد کرونا کا رونا دھونامچا ہوا ہے۔ پہننے والے حفاظتی ماسک مفت عوام کو فراہم کئے جا رہے ہیں۔ تاکہ وہ خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ہمارے خوف خدا سے محروم تاجروں نے آئو دیکھا نہ تائو فوری طور پر ماسک کا تمام سٹاک چھپا دیا یوں بازار میں قلت پیدا ہوتے ہی ماسک کے ریٹ چڑھ گئے۔ اب 180 والا پیکٹ 1800 تک فروخت ہو رہا ہے۔ ہمارے نیک دل شکل مومناں بنانے والے تاجروں کے کرتوت کافراں سامنے آنے لگے ہیں۔ انہوں نے اس آفت کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے کمانے لگے ہیں۔ انہیں نہ خوف خدا ہے نہ حکومت کی پرواہ۔ وہ موت کو بھی فراموش کر چکے ہیں۔ اس لیے ایسے تمام تاجروں ، دکانداروں کو جو مہنگے داموں ماسک فروخت کر رہے ہیں، پکڑ کر چین کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ انہیں کرونا وائرس والے علاقے میں خدمت خلق کے لیے مفت فراہم ہونے والے ماسک سینٹر میں بٹھا دیں جہاں یہ خدمت خلق اور مفت ماسک فروخت کرنے کا تجربہ حاصل کر کے وطن لوٹیں وہاں سے زندہ سلامت بچ نکلے تو ان کے اندر حرص کا وائرس بھی ختم ہو پائے گا۔
٭٭٭٭٭
سینٹ قائمہ کمیٹی کی حج کا کرایہ ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز
حج پر جانے والے تو اس بارے میں اپیلیں کرتے آ رہے ہیں کہ ان سے حج پر آنے جانے کا کرایہ زیادہ لیا جا رہا ہے۔ حکومتی دعوئوں کے باوجود انہیں اس مد میں کوئی سبسڈی نہیں دی جا رہی۔ زائرین کو شکوہ ہے کہ عام طور پر سعودی عرب جانے کا ٹکٹ 60 ہزار تک کا ملتا ہے مگر حج پر جانے والوں سے ایک لاکھ چالیس ہزار وصول کئے جا رہے ہیں۔ یہ حاجیوں سے محبت ہے یا دشمنی۔ جب سبسڈی ہی نہیں دی جا رہی تو یہ ٹیکس کس مد میں وصول کیا جا رہا ہے۔ سینٹ کی ذیلی قائمہ کمیٹی نے اس صورتحال پر بڑا دلچسپ تبصرہ کیا ہے جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ بظاہر لگتا بھی سچ ہے کہ ’’حکومت حاجیوں سے پی آئی اے کا خسارہ پورا کرناچاہتی ہے۔‘‘ اب اسی لیے سینٹ کی ذیلی قائم کمیٹی نے سفارش کی ہے جسے ہم پرزور سفارش بھی کہہ سکتے ہی کہ حاجیوں سے کرائے کی مد میں ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کی بجائے صرف ایک لاکھ روپے وصول کیا جائے۔ اس سے واقعی حاجی بھی خوش ہوں گے اور حج کے موقع پر دعائوں میں حکمرانوں کو بھی یاد رکھیں گے۔ اس طرح ہو سکتا ہے حکومت کے سخت دن جلد ٹل جائیں ۔ ارض مقدس کے سفر پر جانے والوں کو ہرممکن سہولتیں فراہم کرنا ان کی خدمت کرنا ہر اسلامی حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ حکومت بھی اس سنہری اصول کو جاری رکھے۔
٭٭٭٭٭
مزار قائد پر سیلفیاں بنانے پر پابندی لگائی جائے
آج کل جس طرح دنیا بھرمیں سیلفیاں بنانے کا جنوں عروج پر ہے اس نے ہمارے ملک کو بھی متاثر کر رکھا ہے۔ یہاں بھی آئے روز کہیں نہ کہیں سے سیلفی بنانے والوں کے حوالے سے کوئی نہ کوئی انہونی خبر سامنے آ جاتی ہے۔ ویسے بھی ٹک ٹاک سیلفی گرلز اور بوائز جہاں جی چاہتا ہے منہ بنا بناکر کولہے مٹکا مٹکا کر دیدے نچا نچا کر منہ ٹیڑھا کر کے اردو اور انگریزی یوں بولتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی خودبخود ہنسی نکل پڑتی ہے سلفیاں بنا رہے ہوتے ہیں۔آج کل تو ایک نئی ٹک ٹاک گرل کے چرچے ہیں جس کا نام سبین سلطان ہے وہ آج کل سوشل میڈیا پر وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر میں جھولے لیتے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔ صندل خٹک اور حریم شاہ کی طرح لگتا ہے اس کی پہنچ بھی کافی بااثر وزیروں اور مشیروں تک ہے ۔ ورنہ اس ہیلی کاپٹر کے نزدیک کوئی کسی کونہ پھٹکنے دے۔ یہ تو نامور لوگوں کی کارگزریاں ہیں۔ مگر یہ جو منہ چھپا کر مزار قائد اور فیصل مسجد کے باہر ناچنے گانے کے انداز میں سلفیاں بناتی پھرتی ہیں انہیں کونسی بیماری لاحق ہے کہ وہ ان قومی اورمذہبی مقامات کی حرمت کا بھی لحاظ نہیں کرتیں۔ ایسے بگڑے تگڑے سیلفی بازوں کے ساتھ نرمی برتنا درست نہیں۔ ایسے مقامات پر سیلفی بنانے کے نام پر ناچتے تھرکنے پر پابندی لگانا اور اس پر عمل کرانا ضروری ہے تاکہ ان مقامات کی حرمت بحال رہے۔
٭٭٭٭
ریلوے کا مسافروں سے ٹکٹ پر 5روپے ہیلتھ انشورنس وصول کرنے کا فیصلہ
ایسا دوراندیشانہ فیصلہ کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ریلوے کو حادثات کی صورت میں مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کو جو رقم دینا پڑتی ہے۔ محکمہ ریلوے اس بھاری رقم کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس کمزور محکمہ پر اس رقم کا بوجھ پڑتا ہے۔ قربان جائیے اس سادہ دلی پر کہ ’’لڑتے ہیں اورہاتھ میں تلوار بھی نہیں ‘‘دنیا بھر میں ریلوے مسافروںکو جو سہولتیں حاصل ہیں اس کا تصور بھی ہمارے ریلوے کے مسافر نہیں کرسکتے۔ اوپر سے حادثات کی شرح میں بھی ہم کافی آگے ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار بھی یہ ریل میں سفر کرنے والے مسافر ہیں جو ان حادثات میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں یا معذور ہو جاتے ہیں۔ وہ بیچارے تو پوری قیمت دیکر سفر کررہے ہوتے ہیں۔ اب ان پر ہی ہیلتھ انشورنس کے نام پر 5روپے فی ٹکٹ وصول کرنا کمائی کا ایک ذریعہ ہے۔ ٹکٹوںمیں اضافہ کرنے کے اس عمل کو نہایت چالاکی سے ہیلتھ انشورنس کا نام دے دیا گیا ہے تاکہ کوئی اعتراض نہ ہو۔ ویسے ذرا سابقہ حادثات کی فہرست اٹھا کر دیکھیں تو سہی، ان کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ باقی چھوڑیں خبروں کے مطابق ابھی تو کچھ عرصہ قبل ٹرین میں آتشزدگی کے اکثر ہلاک شدگان کے لواحقین اور مجروحین کو امدادی رقم نہیں مل سکی، کئی تو اس پر احتجاج بھی کرتے پائے گئے ہیں۔