پرائیوٹ اسکولوں کی من مانیاں
ہر دور میں انسان کی سماجی ، اخلاقی اور معاشی ترقی کی بنیاد ’’تعلیم‘‘ ہی رہی ہے ہم تعلیم کے حوالے سے شروع سے عدم دلچسپی کا شکار ہیں جس کا خمیازہ ہم جہالت ، غربت ، انتہا پسندی ، عدم برداشت ، محرومیوں اور پسماندگی کی صورت میں بھگت رہے ہیں معیاری تعلیم تو دور کی بات، عام تعلیم بھی عوام کو میسر نہیں۔ لاکھوں بچے تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں۔ ملک میں تعلیم کو تجارت بنا دیا گیا ہے پرائیویٹ اسکول مالکان تعلیم عام اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے بجائے اپنے بینک اکاؤنٹس بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایسے پرائیویٹ اسکولز جو گلی محلوں میں 80 گز‘ 120 گز اور 200 گز کے پلاٹوں پر مشتمل ہیں ان اسکولز مالکان کے پاس کوئی اسمبلی‘ پی ٹی کے لئے گرائونڈ ہے نہ ہی اسکولوں میں سالانہ اسپورٹس ویک کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بچے اپنی کلاسوں میں ہی قومی ترانہ سن کر اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔
اسکول مالکان سے استفسار کیا جائے کہ سالانہ چارجز کس مد میں لئے جاتے ہیں اگر ایک چھوٹے سے اسکول میں 500 بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں تو کم از کم سالانہ چارجز 1000 روپے کے حساب سے 5 لاکھ روپے پورے سال کی بچت اسکول مالکان کے اکائونٹ میں جمع ہوتے ہیں۔ ‘ہر سال فیسوں کی مد میں اضافہ‘ اسکول انتظامیہ نے والدین کو پابند کیا ہے کہ اسکول یونیفارم مخصوص دکانوں سے ہی خریدنا ہے۔جب والدین ان دکانوں کا رخ کرتے ہیں تو ان دکانوں پر مارکیٹ سے زیادہ قیمت پر یونیفارم فروخت کئے جاتے ہیں انہیں والدین خریدنے پر مجبور ہیں۔ اسکولوں کی جانب سے منتخب کئے گئے پبلشرز کی کتابیں مخصوص دکانوں پر فروخت ہوتی ہیں جن کی قیمتیں بھی زیادہ ہیں۔ بہت سے اسکولوں میں کتابیں اور کاپیاں اسکولوں سے خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے اگر کاپیاں اسکول سے نہ خریدی گئیں تو بناء اسکول مونوگرام والی کاپیاں کلاس ٹیچر چیک نہیں کرے گا۔اسکول یونیفارم پر اسکول مالکان کا پرسنٹیج فکس ہوتا ہے۔
اب جبکہ اسکولوں میں فائنل امتحان شروع ہوچکے ہیں میں اپنے بچے کے پہلے پرچے والے دن جب اپنے بچے کے ہمراہ اسکول پہنچا تو یہ دیکھ کر نہایت افسوس ہوا کہ 400 سے 500 بچے جو کہ نرسری کلاس یا کے جی ون‘ یا کے جی ٹو کلاسوں کے لے کر آٹھویں کلاسوں تک کے اپنے والدین کے ہمراہ باہر کھڑے ہیں۔ بچوں کو اسکول کے اندر صرف اور صرف اس لئے نہیں جانے دیا جارہا ہے تھا کہ جون‘ جولائی اور سالانہ چارجز ادا نہیں ہوں گے تو بچوں کو کلاسوں میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی آج کے پیپر میں غیر حاضر تصور کیا جائے گا۔ جب ان میں سے کچھ بچوں کے والدین سے میری بات ہوئی تو ان بہت سے والدین نے کہا کہ ہم نے جون اور جولائی کی فیسیں ادا کردی ہیں مگر سالانہ چارجز ادا نہ ہونے پر آج بچوں کو امتحان میں نہیں بیٹھنے دیا جارہا۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث والدین پہلے ہی سفید پوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ فیسوں میں ہر سال اضافے سے ان کے گھریلو اخراجات پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔
16 ستمبر2017 کو کراچی میں بھی نجی اسکولوں کی جانب سے ٹیوشن فیس سمیت دیگر مدوں کی فیسوں میں اضافے کے خلاف والدین کی ایک بڑی تعداد نے پریس کلب کے باہر شدید احتجاجی مظاہرہ کیا۔احتجاج کرنے والے والدین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں غیر معمولی اور بے جا اضافے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ ان بینرز پر ’’طلبا کا مستقبل بناؤ پیسے نہ بناؤ، طلبا کے مستقبل سے نہ کھیلو، والدین کو اے ٹی ایم مشین نہ سمجھو‘‘ جیسے نعرے تحریر تھے۔ جنریٹر کے نام پر جو پیسے ماں باپ سے لئے جاتے ہیں کبھی بچوں سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ جنریٹرز تو اکثر خراب ہوتے ہیں، سیکورٹی کے نام پر جو والدین سے پیسے لئے جاتے ہیں وہ بھی کوئی خاص سیکورٹی نہیں کسی عام شخص کو وردی پہنا دی جاتی ہے اور ایک ناکارہ سا کیمرہ لگا کر والدین کو تسلی کرادی جاتی ہے۔
نجی اسکول سسٹم نے ایک مافیا کا روپ دھار لیا اور سرکاری طور پر تباہ شدہ تعلیمی نظام کا متبادل نظام دے کر تعلیم کو برائے فروخت کے طور پر اپنی من مانیاں شروع کر دی گئی ہیں۔ نااہل افراد اسکولز اونر بنے بیٹھے ہیں۔ نااہل اساتذہ ان پرائیویٹ اسکولوں میں بچوں کو تدریس دے رے ہیںجس کی روک تھام کے لئے نہ تو کوئی عملی اقدام کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاج عمل میں لایا گیا ہے۔
آج تک کسی وزیر اعظم ،وزیراعلیٰ یا وزیر تعلیم نے نجی و پرائیویٹ ا سکولز کی بھرمارکا نوٹس نہیں لیا۔ ہر گلی ہر نکڑ پر ایک پرائیوٹ ا سکول موجود ہے یہ نجی و پرائیوٹ اسکولزکسی بورڈ سے رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔تعلیم کے نام پر تجارات کررہے ہیں اورعوام کو دونوں ہاتھوں لوٹتے ہیں کیا انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں‘ ایسا کیوں ہے؟۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا اولین مقصد یہی ہونا چاہیے کہ وہ طالب علموں کو اچھی علمی فضااور نظامِ تعلیم فراہم کرے کہ جس میں تعلیم جدید تحقیق اور بحث و مباحثہ جیسے عوامل موجود ہوں ۔
صدر مملکت پاکستان ‘وزیراعظم صاحب‘ وزیر اعلیٰ سندھ‘ گورنر سندھ‘وزیر تعلیم ‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان‘ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور ججز صاحبان سے گزارش ہے کہ بے لگام / نااہل اسکول مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اگر ان اسکولز کے خلاف ایکشن نہ لیا گیا بچوں کا مستقبل داو پر لگ جائے گا۔