سری دیوی کی موت کی خبر، شہ پارہ، نے سب سے پہلے فارورڈ کی… کسی اخبار کا لنک تھا…
آج کل مشہور شخصیات کی اموات کی جھوٹی خبریں پڑھ پڑھ کر آنکھیں لفظ ’’موت‘‘ کو بھی کوئی لطیفہ ہی سمجھنے لگی ہیںاسی لئے ایک دم لگا، یہ بھی کوئی جھوٹی خبر ہو گی لیکن شہ پارہ، پر یقین تھا کہ وہ حالات حاضرہ پر ’’اپنی نظر‘‘ رکھتی ہیں، دوسروں کی نظروںسے دنیا نہیں دیکھتیں اور اپنے بڑے واضح نقطہ نظر کے ساتھ بات کرتی ہیں جس کا فقدان آج کل بہت زیادہ ہو تا جا رہا ہے… بس ایک لہر سی چلتی ہے… ایک پیغام فاروڈ ہونا شروع ہوتا ہے، وہ کوئی خبر بھی ہو سکتی ہے، کوئی کارٹون، کو ئی لطیفہ یا کوئی قول… تو بس سارا دن با ر بار وہی گھومتا رہتا ہے… آخر انسان کتنوں کو لکھے کہ یہ پیغام ہمیں موصول ہو چکا ہے… تو شہ پارہ کی سچائی کے باوجود دل کیا کہ کوئی کہہ دے کہ یہ خبر جھوٹی ہے اور سری دیوی کا ایک ٹویٹ آجائے… ’’کہ نیندیں اڑانے… ہوا ہوا آئی…‘‘
فیس بک کے شور شرابے اور fakeness سے گھبرا کر اسے بند کیا ہو تو واٹس ایپ کو کھلا رکھنا پڑتا ہے ورنہ لوگ مکمل طور پر مردہ ہی سمجھنے لگتے ہیں۔ خیر اس کے بعد لگے بندھے طریقے سے، سری دیوی کی ناگہانی موت کے میسجز آنے لگ گئے… فارورڈ لنکس…
کچھ لوگ، کچھ چیزیں، کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں، جن سے آپ کی زندگی کا کوئی باب جڑا ہو تو، وہ دور ہوں یا پاس، ان سے منسلک کوئی بھی خبر آپ کو ہلا دیتی ہے۔
اسی لئے سری دیوی کی موت کا دکھ، محض ایک اداکارہ کا دکھ نہیں تھا، اس کے ساتھ ہمارے اس سنہری دور کی یادیں جڑی ہو ئی تھیں، جب ہم پڑھائی کی لمبی فکروں کے باوجود بے فکری کی لمبی نیند سوتے تھے۔ ایک فلم دیکھنے کے لئے ویک اینڈ کا انتظار کرتے تھے… اور جب وہ گذر جاتا تھا تو اگلے ویک اینڈ کا انتظار شروع ہو جاتا تھا اور جس دن وی سی آر کرائے پر آجا تا تھا، اس دن ایک نہیں چار چار فلمیں دیکھنا فرض ہو جاتا تھا… ورنہ کر ائے کے پیسے کیسے پو رے ہوتے… ہماری نسل عجیب نسل ہے، انہوں نے کرائے پر لائے جانے والے وی سی آر کا دور بھی دیکھا اور سمارٹ فون پر دنیا کے کسی بھی حصے، کسی بھی وقت کی فلم، دیکھنے والا دور بھی بھرپور طریقے سے دیکھ رہے ہیں…!
ہم سا ہو تو سامنے آئے… (سری دیوی ہوتی تو یہی کہتی)
سری دیوی ایک پورے دور کا نام تھا۔ ہماری نسل کو جوان کرنے اور رنگین خواب دکھانے میں اس ہوشربا اداکارہ کا بہت ہاتھ ہے۔ اس کی کوئی بھی فلم آتی، اسے دیکھنے کے لئے سب مچل اٹھتے تھے۔ ہم سب اس کی فلمیں دیکھ کے لطف اندوز ہوتے، وہ ہماری نسل کو entertain کرتی تھی… آپ کو کوئی ایک پل کی بھی خوشی دے اس سے بڑا آپ کا محسن کون ہو سکتا ہے… اور سری دیوی نے تو نجانے کتنے ہی خوشی اور relaxation کے پل دئیے ہونگے…
میں نے بوجھل دل کے ساتھ اس منحوس خبر کو سب جاننے والوںکے ساتھ شیئر کیا… دل کر رہا تھا کوئی مجھ سے بات کرے… جیسے کوئی اپنا مر جائے تو اپنوں کے گلے لگ کر ہی سکون آتا ہے، مجھے کسی کے لکھے ٹویٹ یا فیس بک کی پوسٹس نہ فارورڈ کر ے… کوئی مجھ سے اس زمانے کی بات کرے جب دیوی کا عروج تھا اور ہم سب اسکے ننھے منے پرستار…کبھی کبھی خواہشیں پل بھر میں پوری ہو جاتی ہیں… عین اسی وقت ایک میسج ملا…
’’سری دیوی سے میرا تعارف بہت سال پہلے ہو اتھا، اس کی کوئی بھی فلم دیکھنے سے بھی پہلے، ابو، GHQ میں تھے اور ان کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ دفتر میں مختلف قسم کے میگزین لاتے تھے۔ شروع شروع میں وہ ٹائمز اور نیوزویک ہوتے تھے، بعد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ملٹری جرنلز کے ساتھ ساتھ انڈین میگزینز بھی ان کے بریف کیس میں آنے لگے۔ مجھے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ اچھا لگنے لگا۔ ایک کے ٹائٹل پر میں نے سری دیوی کی تصویر دیکھی۔ میگزین میں اس کے حسن، ڈانس، ایکٹنگ اور لگن اور محنت کی تعریفوں کی بھرمار تھی۔ میں نے وہ سب پڑھا اور پھر میں نے اس کی فلم ڈھونڈنی شروع کی۔ پہلی فلم میں نے اس کی ’’تحفہ‘‘ دیکھی جس کا گانا ’’پیار کا تحفہ تیرا… بنا ہے جیون میرا‘‘ خوبصورت کپڑے، عظیم الشان سیٹ، دلکش ڈانس، جمپنگ جیک جتیندر کے ساتھ ڈانس کرتی سری دیوی… وہ دیکھنے میں بھی اچھی لگی اور اس کی ایکٹنگ نے بھی متاثر کیا۔ میں اس کے سحر میں ایسے نہیں گرفتار ہوا جیسے کہ ڈمپل اور پروین بابی کے میں ہوا تھا لیکن مجھے پھر بھی وہ اچھی لگی۔ پھر میں نے اس کا امیتابھ کے ساتھ ڈانس دیکھا۔ ’’سارے بدن میں زہر چڑھ گیا‘‘۔ پھر اس کا گانا ’’کسی کے ہاتھ نہ آئے گی یہ لڑکی‘‘ چاندنی اور لمحے اس کی بہترین فلمیں ہیں۔ اب نگینہ بھی دیکھوں گا… سری دیوی RIP… تم ایک خاص قسم کی داسی تھی… بے شک سب کو اللہ کی طرف واپس لوٹنا ہے اور تم لوٹ گئیں‘‘ (ترجمہ)
ایک قلمی دوست، جس سے میں آج تک نہیں ملی، کی طرف سے یہ میسج موصول ہوا تو سوچا شائد انہوں نے فیس بک کا سٹیٹس لگایا ہو گا اور مجھے فیس بک پر نہ ہو نے کی وجہ سے وٹس ایپ پر کاپی کر دیا… میں نے اُن سے کہا بہت moving ہے ، فیس بک کے لئے ہے ؟
جواب ملا: ’’نہیں آپ کے لئے…‘‘
میری آنکھوں میں سری دیوی کی موت کے دکھ کے ساتھ ساتھ ، آج کے انسان کی ایک دوسرے سے بیگانگی کا احساس نمکین پانی کی صورت ا تر آیا… کوئی تو ہے جو فیس بک کے ہجوم کو اپنی طرف مائل کرنے اور لائیکس کے چکر سے بیگانہ ہو کر صرف اپنے دوست کے ساتھ اپنے دل کی بات شئیر کر رہا ہے…
’’آپ کے لئے…‘‘
اب ہم کب ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں…؟ فیس بک کی پوسٹس اور ٹوئیٹر پر میسج پوسٹ کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے followers اور like اور کمنٹس کر نے والوں کی گنتی کرتے رہتے ہیں… بات صرف اس سے کرتے ہیں جس سے کسی قسم کا کوئی مطلب ہو، باقی سب کو فارورڈ میسجز پر لگا کے رکھا ہوتا ہے…مگر یہ کتنا عجیب دوست ہے جسے میں کبھی ملی نہیں، جو یورپ کے کسی ملک میں رہتا ہے ۔ ایک ایسی لیجنڈ کی موت کو یاد کرتے ہو ئے مجھے اپنی ماضی کی گلیوں میں لے جارہا ہے، جہاں اس خوبصورت پری نے اسے زندگی کے خوش گوار احساسات سے روشناس کروایا تھا…
ہم کب سے ون ٹو ون خلوص اور دوستی کو کھو چکے ہیں…؟ اور ہمیں اس نقصان کا اندازہ بھی نہیں۔
پاکستان میں میری ایک دوست ہے عظمیٰ، دن ہو یا رات کسی پہر بھی اسے میسج کروں تو فوراً جواب دیتی ہے۔ میں نے عظمیٰ کے ساتھ مل کے پرانی یادوں کو تازہ کیا، جب ہمیں سری دیوی اچھی لگتی تھی… ذوالقرنین، میرا پنجاب بنک کا ساتھی، پاکستان میں ہوتا ہے… رات کے اس پہر وہ بھی جاگ رہا تھا اسے میسج کیا:
’’تمھیں یاد ہے جب تم جدائی فلم دیکھ کے آئے تھے… اور تمہاری نظر کیش کائونٹر کے پیچھے نوٹوں کی گڈیوں پر پڑی، تو تم نے کہا تھا… سری دیوی اپنے شوہر کو پیسے لے کر بیچ دیتی ہے اور پھر پورے بیڈ پر نوٹوں کی گڈیاں پھیلا کر کہتی… ’’ہائے میرے نوٹوں کی گڈیاں‘‘… تم نے جس انداز سے اس کی نقل کی اس سے ہنس ہنس کے ہمارے پیٹ میں بل گئے تھے… وہ بھی مل کے میرے ساتھ یادوں کی گلیوں میں نکل آیا۔
مجھے یورپ میں بسنے والے اس اجنبی دوست کے پرخلوص، میسج نے یہ یاد کروایا کہ مجھے اپنے دوستوں سے اپنی باتیں کئے، اپنا ماضی، اپنا حال سنائے کتنے دن ہو گئے ہیں…سری دیوی خوش رہو… جہاں بھی رہو… جاتے جاتے بھی تم مجھ میں ایک احساس جگا گئی… اور وسیلہ وہ دور دراز بے غرض مخلص انسان بنا…
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024