ستاروں پہ کمند ڈالنے کو تیار سیاستدان
لودھراں کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومتی پارٹی مطمئن ہے کہ ابھی سیاسی میدانوں میں کھیل باقی ہے اور میاں صاحب کو عوام کے دلوں سے نکالنا مشکل ہے۔ دہائی مچاتے میاں صاحب اپنے سیاسی کیرئیر کے نشیبوں سے’’کیوں نکالا ‘‘کہتے ہوئے اٹھے تھے اور سوال پوچھتے پوچھتے ابھی تک ہر انتخابی دنگل میں سر خرو ہو رہے ہیں اور دوسری طرف خان صاحب ہیں کہ مارچ ہی سے ملک گیر جلسوں کی نوید سناتے ، کچھ لودھراں کے زخم چاٹتے اور ہوئی کوتاہیوں کی از سر نو چھان پھٹک کرتے ٹوئٹر کے اکاؤنٹ پہ سیاست کے ساتھ ساتھ عوام میں انتخابی مہم شروع کرنے کو پر تول رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی لودھراں میں تین ہزار ووٹ لیکر اپنی سیاسی حالتِ زار پہ نوحہ کناں ہے کہ اب سیاست کی طرف سفر ہو تو کیسے ہو۔
سینٹ کی سیٹ کیلئے ہوتے بھاؤ تاؤ بتاتے ہیںکہ آنے والا قانون سازی کرے گا یا پھر پہلے اپنے اُٹھے اخراجات پورے کرے گا اور پھر کچھ نفع بھی کمائے گا۔اسمبلیوں میں پہنچتے اکثر یہ ارکان دل لگا کر الیکشن پر پیسہ لگاتے ہیں اور پھراسمبلی میں پہنچ کر دونوںہاتھوں سے ہی کماتے ہیں۔
انتخابات کسی عام غریب انسان کے بس کی بات نہی۔ووٹر اگر خود کو ہونہار بروا کے چکنے چکنے پاٹ کے مصداق پاتا ہے تو فقط اس موسم کے آم کھائے اور پیڑ نہ گنے، کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ الیکشن کمیشن جس پہ یوں انگلیاں اُٹھائی جاتی ہے اس کی کیا کوئی قانونی اہمیت بھی ہے۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے مل کر خود ہی اس کے قواعد و ضوابط بنا لئے اور پھر اندھیر نگری چوپٹ راج کا کھیل شروع ہوا جس میں جیت ہار کا فیصلہ طاقتور ہی کرتا ہے۔ اس ادارے کے قواعد میں ترمیم اور اسے فعال بنانے کی باتیں ہر کوئی کرتا ہے لیکن کوئی کرتا کچھ نہیں بس ایک راگ ہے جو ہر انتخاب سے پہلے الاپا جاتا ہے ورنہ اسی ادارے کے قانون کے مطابق انتخابات پہ اخراجات ، دھن اور قوت کی دھونس، مجبوری،بلیک میلنگ،برادری ازم کا پرچار اورجاگیر داری کا اثرو رسوخ سب ممنوع ہیں۔ انتخابی بوتھ پہ لڑائی مار کٹائی، ہاتھا پائی ، فتنہ فساد ،قتل گری، انتخابی ڈبوں کو انتخاب سے پہلے ہی ووٹوں سے بھردینا ، اپنے حلقۂ انتخاب میں ووٹوں کا اندراج اور جعلی شناختی کارڈز سے اپنے رنگ جمانا اور مہریں لگوانا کسی سے کیا ڈھکا چھپا ہے لیکن شاید کامیابی کی ایک دلیل بنا یہ عمل ہے کہ ہر دفعہ دہرایا اور آزمایا جاتا ہے۔ہم سب دیکھتے ہیں کہ جب قومیت ، زبان ، علاقائی تعصب اور اپنے اپنے فرقوں کے مطابق بڑھکا دینے والے نعرے لگتے ہیں تو ایسا اودھم مچتا ہے کہ خدا کی پناہ،کمزور دل اُمیدوار تو ویسے ہی دل ہار کے بیٹھ جاتا ہے جس سے ایک جاگیردرانہ سوچ سر پہ فتح کا تاج سجائے اپنی قیمت وصول کرتی ہے اور اگر کہیں کوئی ایسی قوت ہار بھی جائے تو یہ ہار کب ہضم ہوتی ہے کیونکہ جمہوریت کے دعویدار جمہوری رویوں سے یوںکوسوں دور ہوتے ہیں کہ اس امیدوار کے حلقے میں ہر ووٹر کا تعین کیا جاتا ہے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا ہے اور اگر وہ امیدوار حزب مخالف کا نمائندہ ہے تو پورے پانچ سال وہ حلقہ اور ووٹر تختۂ مشق بنے گا۔
جیتنے والے کے گرد مفاد پرست لپک لپک آتے ہیں اور اپنے مفادات نکلواتے اس کی خوشامد و چاپلوسی کرتے اسے کسی اور دنیا کی مخلوق سمجھنے پر ہی مجبور کر دیتے ہیں اور اسے بھی اسی منزل کا راہی بنا دیتے ہیں کہ عام عوام اس کیلئے ایک حقیر مخلوق بنتی جاتی ہے اور وہ شاہ سے شہنشاہ بن جاتا ہے۔ وردی اور اداروں پہ کیچڑ اُچھالنا ایک بنانیہ بن جاتا ہے کیونکہ اگر تاریخ کو بغور دیکھا جائے تو شیروانی والوں نے بھی اس جمہوریت کے نام پہ جمہوریت کو کوئی کم نقصان نہیں پہنچایا۔ ان کا بھی مخالفین کو کُچل دینے کا ماضی کچھ ایسا داغدار ہے کہ انہیں جمہوری کہتے شرم آتی ہے ۔
کیا انہی سڑکوں نے ایک سابقہ جمہوری وزیر اعظم صاحبہ پر برستی لاٹھیاں نہیں دیکھیں،کیا انہی آنکھوں نے اس کے لباس سے لیکر اس کے کردار تک حملے نہیں دیکھے کیا ان شیروانیوں کا ماضی داغدار نہیں کہ جن میں جمہوریت دشمن اداروں کا آلۂ کار بننے کے الزامات ان کے جمہوری سوچ اور رویوں کے خوب آئینہ دار بنے سب کے سامنے ہیں؟کیا جمہوریت اور آمریت میں ہم عوام بھی کوئی فرق محسوس کرتے ہیں یا ہمیں ہر دور میں سبز باغ ہی دکھایا گیا ہے۔ کیا جمہوریت ہمیں عدم براشت کے رویے تو نہیں سکھلا رہی جس میں احتجاج کرنے والوں کو روکنے کا سلسلہ کسی لاٹھی ، آنسو گیس اور گولی پہ ہی ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
کیا ہماری آنکھوں کے سامنے ریلوے ، اسٹیل مل اور پی آئی اے جیسے ادارے نہیں ڈوبے ؟ کیا عوام غریب سے غریب تر اور سیاست دان امیر سے امیر تر نہیں ہوئے،کیا جو کل مفلس تھے آج مفلس تر نہیں ہیں ، کیا ایک کاشتکار کا گنا 180 کی بجائے صرف 80 روپے میں نہیں خریدا جارہا ، کیا اس شوگر مافیا نے گنا اتنا ارزاں لیا ہے تو قوم کو چینی پہ کچھ ریلیف بھی دیا ہے ۔ یہ شوگر ملیں کس طبقے کی ہیں کیا یہ وہی تو نہیں کہ جن کے بیرون ِملک محلات میں تو اضافے کی نوید ہے لیکن وطن کے چمن زار میں آشیانے جل رہے ہیں اور بک رہے ہیں۔ کیا ہاؤسنگ اسکیموں میں پلاٹ کاٹ کاٹ کے کسی کی ساری عمر کی جیب تو نہیں کاٹی جارہی اور کون اس دھندے کا سرپرست ہے اور یہ کڑیاں کہاں جا ملتی ہیں لیکن اگر یہی آج کا سچ ہے تو پھر ’’کن ستاروں پہ کمند ڈالنے کو یہ سیاسی قوتیں تیار ہو رہی ہیں؟‘‘