نفسیاتی جنگ عسکری مہمات کا اہم حصّہ ہوتی ہے اور پروپیگنڈا اس جنگ کا موثر ہتھیار تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس قدر غیر محسوس طریقے اور زمینی حقائق کو منطقی طور پر اپنے مقاصد کیمطابق ڈھال کر پیش کیا جائے اتنی ہی یہ جنگ دیر پا اثرات کی حامل ہوتی ہے اور جہاں بھی منطق کے بر عکس بے بنیاد الزامات کا سہارا لینے کی کوشش کی جائے تو یہی کوشش مضبوط پروپیگنڈے کو بھی توڑ کے رکھ دیتی ہے۔ حال ہی میں ایک بے بنیاد پروپیگنڈے کی کوشش کی گئی جو دراصل غیور پٹھانوں کیلئے بہت بڑی گالی تھی۔ وہ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے حکومتِ پاکستان سے یہ مطالبہ تھا کہ گذشتہ سالوں میں اپریشنز کے دوران گرفتار کئے گئے عورتوں اور بچوںکو رہا کر دیا جائے۔ اسکی فوری سپورٹ بھی ہمارے ان کرم فرمائوں کی طرف سے مل گئی جن کا مشرقی پاکستان میں تجربہ تھاکہ خواتین کو محبوس کرنے کے الزامات کس قدر بے بنیاد اور کیونکر لگائے جاتے ہیں اور شائدمّلاعبدلقادر کی بنگلہ دیش میں کچھ اسی طرح کے الزامات میں پھانسی کے خلاف انکی آوازیں ابھی تک فضا میں سرگرداں ہوںگی۔ چونکہ اتنے برسوں میں آج تک کہیں سے بھی یہ آواز سنائی نہیں دی تھی کہ ہماری فورسز نے عورتوں اور بچوں کو قید کر رکھا ہے لہٰذا عوام الناس‘ خصوصاً اپریشنز والے علاقوں کے عمائدین نے الزام کو حقارت سے رد کر دیا۔اس معاملے پر عمومی خاموشی تو چھا گئی ہے مگر کچھ سوالوں نے جنم لیا ہے جن کا من حیث القوم واضح جواب تلاش کرناناگزیر ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اتنے سال اس غیر اخلاقی فعل پر (جو ہوا ہی نہیں) مبیّنہ قیدیوں کے لواحقین اور میڈیا کیوں خاموش رہے؟ کیا انکے سپورٹر بھی اس جرم میں شامل تھے جو چپ رہے؟۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ قومی طاقت کی پیٹھ میں یہ خنجر اس وقت کیوں گھونپا گیا جس وقت وہ قومی امن کی خاطر دہشت گردوں کیخلاف بر سرِ پیکار ہیں۔ حکومت اور میڈیا نے اتنی زہریلی گولی کیسے نگل لی یا انہیں کڑوی لگی ہی نہیں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اس الزام کا دوسرے الزامات سے کوئی تعلق تو نہیں؟ مثلاًافغان سکیورٹی حکام نے صوبہ کنڑ میں فوجی اڈے پر حملے کا الزام پاکستان پر لگا دیا‘ فرانسیسی میڈیا کا الزام کہ سعودی عرب شامی صدر بشار الا سد کیخلاف باغیوں کو اسلحہ پاکستان سے خرید کر دیگا‘ یہ خبر کہ پاکستان بالآخر دو ڈویژن فوج سعودی عرب بھیجے گا یعنی ہمارا اسلحہ اور ہمارے ہی جوان وہاں پر مذہبی عسکریت پسندوں کیخلاف استعمال ہونگے۔ پھر یہ خبر کہ کچھ دوست ممالک ہمارے ملک میں دہشت گردوں کی فنڈنگ کر رہے ہیں اور یہ بھی کہ اس ہفتے میں ہماری فورسز نے وزیرِ ستان میں لاتعداد بے گناہوں کو ملیا میٹ کر دیا وغیرہ وغیرہ۔چوتھا سوال یہ کہ کیا حکومت اور میڈیا کی نظر میں اس معاملے میں کوئی گہرائی ہے یا یہ نظر انداز کیے جانے کے قابل ہے؟
جس طرح سے ایشیا اور خصوساً پاکستان کے گردونواح میں حالات چل رہے ہیں ان کے تناظر میں اس چال میں گہرائی اور مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے واقعات کے ساتھ مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ میری نظر میں یہ ہماری افواج کیخلاف پروپیگنڈے کی نئی مہم کا نقطہ آغاز ہے۔ جس طرح کے پروپیگنڈے سے اسلامی ممالک کی افواج پر کاری ضرب لگائی جاتی رہی ہے۔ عراق‘ افغانستان پر امریکی لشکر کشی ہو یا عرب سپرنگ‘ جن الزامات پر تباہی لائی گئی وہ بعد میں درست ثابت نہ ہوئے اور اگر درست ہوتے بھی تو تباہی یا سزا الزامات سے کہیں زیادہ تھی۔ پھر الزامات کے سپورٹر بھی اندر سے ہی ملتے رہے جو مہمات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوئے۔ اسی طرح پاکستانی افواج پر بے بنیاد مگر جذباتی الزام لگایا گیا ہے اور ملک کے اندر سے ہی سپورٹ بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ مقتدر حلقوں اور دانشوروں نے اس پر کوئی خاص ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا لہٰذا کچھ دنوں بعد اس سے بڑا الزام بھی لگ سکتا ہے جسے اندر سے بڑی سپورٹ بھی ملے گی۔ ٹارگٹڈ فضائی حملوں پر کارپٹ بمباری‘ کیمیکل اور چھوٹے نیو کلئیر ہتھیار تک استعمال کرنے کا الزام بھی سامنے آ سکتا ہے اس پر حسبِ سابق انسانیت کُش طاقتیں انسانیت کے نام پر ایکٹو ہو سکتی ہیں۔اگر اسے آج نہ روکا گیا تو مشرق ِوسطیٰ کا منظر نامہ یہاں بھی ابھر سکتا ہے۔ روکنے کیلئے ہمیں چند فوری اقدامات کرنے ہونگے۔
۱۔ملکی سلامتی کے امور پر ہمیں اپنے اندر یکجہتی پیدا کرنی ہوگی جو سیاسی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو۔ویسے اس کیلئے ماحول کافی حد تک بن چکا ہے۔
۲۔ قومی موقف واضح ہونا چاہیے۔ پوری قوم اپریشن نہیں چاہتی مگر تباہی کرنیوالوں کی‘ امن حاصل کرنے کی حد تک‘ تباہی کو درست اور وقت کی ضرورت سمجھتی ہے۔لہٰذا بھاری مینڈیٹ والی قیادت کو اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا لینا چاہیے۔ ۳۔ افواج کو غیر مبہم الفاظ میں مقاصد اور اہداف دیے جائیں جنہیں حاصل کرنے کے بعد حالات کو نارمل کرنے کا لائحہ عمل حکومت کے پاس تیار ہو۔
۴۔جو سیاسی پارٹیاں اور غیر ملکی ایجنسیاں پروپیگنڈے کے آغاز میں ہی سپورٹ کرتی نظر آتی ہیں انہیں قوم کے سامنے لایا جائے اور وہ ثبوت کے ساتھ میڈیا پر اپنی پوزیشن واضح کریں۔ اس صورتِ حال پر حکومتی خاموشی آگے چل کر اعانتِ مجرمانہ کہلا سکتی ہے۔ایک ترکی کہاوت ہے کہ’’ جب جنگل میں کلہاڑا چلا یا گیا تو درختوں نے کہا کہ اس کا دستہ تو ہم میں سے ہے‘‘اگر ہم اس کلہاڑے کے دستے کو ابھی سے نکال دیں تو کاٹنے والا لوہا سکریپ میں بیچا جا سکتا ہے۔
۵۔ اپریشنز کے دوران اور اسکے بعد IDPکا مسئلہ بہت سارے فوری مسائل ‘ منفی پروپیگنڈااور دیرپا تکالیف کا باعث بنتا ہے۔حکومت کو انکی رجسٹریشن اور تمام سہولیات کے ساتھ تیار کیے گئے کیمپوں میں مقیم کرنے کا پہلے سے انتظام کرنا چاہیے تاکہ قوم ان اثرات سے بچ سکے جو افغان جنگ کے نتیجے میں ہم 34سال سے بھگت رہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق وزیرِستان سے عوام کا انخلاء شروع ہو چکا ہے جس کی رجسٹریشن اور مہمانداری انہی کے سپورٹر کر رہے ہیں۔ ان معصوموں کے بھیس میں کتنے عسکریت پسند ابھی تک اندر آ چکے ہیں اور کتنے مزید آئیں گے فی الحال حکومت اس سے بے خبر ہے۔
خدا کرے حکومت اپنی سکیورٹی پالیسی واضح مقاصد اور ذمہ داریوں کے تعین کیساتھ دے‘کیونکہ ایسی وضاحتوں سے پروپیگنڈا‘ قیاس آرائیاں اور سازشی تھیوریاں دم توڑجاتی ہیں۔وطنِ عزیز گزشتہ ایک عشرے سے زیادہ وقت سے عسکری‘ معاشرتی‘ مذہبی‘ معاشی‘ سیاسی غرض ہر میدان میں نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈے کی یلغار کا مقابلہ کر رہا ہے جس کی پشت پر دشمنوں کے علاوہ کچھ دوست نما بھی ہیں۔ کہیں کہیں قیادت‘ بلکہ آپس میں عدمِ اعتماد کی وجہ سے نقصان تو ہوا ہے مگر اتنا خون بہنے کے بعد بھی قوم میں دہشت زدہ ہونے کی بجائے طاقت اور پر عزم مقابلے کا رحجان غالب نظر آتا ہے۔ دہشت گردوں کے اتنی لمبی مدّت میں دہشت زدہ نہ کر سکنے کو تاریخ میں دہشت گردی کی عبرت ناک شکست لکھا جائیگا۔
مرے چراخ تو سورج کے ہم نسب
غلط تھا اب کے تیری آندھیوں کا
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38