پاکستان اور مسلم امہ

Dec 28, 2024

مسرت قیوم

پرائی آگ میں اک عمر تک جلے ہم لوگ
خود اپنی آگ میں جلتے تو کیمیا ہوتے
ابدی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اسی قوم کو سلطنت سے نوازا جو علم و ہنر میں دوسری اقوام سے بہتر تھی۔ اس بنا پر آدم علیہ السلام ملائکہ پر فضیلت لے گئے۔ کائنات کی خلافت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو عطا ہوئی ایک وقت تھا کہ مسلمان علم و فضل اور تحقیق و جستجو میں یکتا تھے۔ صرف قرآن کریم احادیث نبوی کو سمجھنے کو خاطر صد ہا درسگاہیں قائم کیں علوم عقلی اور علوم فنون عملی کو بطور نصاب پڑھایا۔ مصر، بغدار، قرطبہ کے تعلیمی ادارے و کتب خانے اپنی شان و شوکت میں منفرد تھے تب یورپ اندھیروں میں غرق تھا پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب مسلمانوں نے اپنی صلاحیتوں کو بے مقصدی بحث و مباحثوں میں الجھا کر تعلیم و تحقیقی سے منہ موڑا تو قدرت بھی روٹھ گئی۔ بغداد جو علم و فضل کا گہوارہ تھا۔ بار بار اجڑا آباد ہوا اور پھر اجڑ گیا (آباد تو اب اللہ ہی کر سکتا ہے) کہیں انگریز ہم پر مسلط ہوگئے۔ کہیں پرتگالی اور کہیں فرانسیسی استحصال کرنے لگے۔ کفار نے ہم سے رہن سہن کھانے پینے کے آداب سیکھے۔ مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید میں حکومت کے ساتھ ہماری اخلاقیات، خاندانی اقدار و روایات بھی رخصت ہو گئیں۔ ایک ارب سے زائد آبادی رکھنے والے 57 مسلم ممالک کا آج یہ حال ہے کہ مادی وسائل سب سے زیادہ مگر یورپی بینکوں میں کیونکہ اپنے ملک، عوام پر اعتبار نہیں۔ اسلحہ کے سب سے بڑے خریدار مگر خریدتے دشمنوں سے اور استعمال اپنے بھائیوں کےخلاف کرتے ہیں(طبع شدہ 12ستمبر 2003ئ)۔
غلامی سے نکلنے کا کوئی امکان پیدا کر 
خدا کے پاک بندے اپنا پاکستان پیدا کر
قارئین متذکرہ بالا کالم کو شائع ہوئے کتنے سال گزر گئے۔ تاریخ پڑھ کر اندازہ لگائیں اور دیکھیں کہ حالات بہتری کی بجائے تنزلی کی طرف ہی گئے۔ سدھار کی نسبت ادھار اور اصلاح کی بجائے بگاڑ نے ”مسلم امہ“ کو ”مسلم قیمہ“ میں بدل ڈالا۔ ہر ملک کو اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے ہمیشہ کی طرح بے تکا، بے بنیاد الزام اور غیر ضروری پابندیاں کہ ”میزائل تیاریاں پاکستانی ارادوں پر سوال اٹھاتی ہیں“۔ پاکستان کیا پاگل ہے؟ لمحہ موجود تک جتنے بھی ممالک پر پابندیاں لگیں وہ ختم نہیں ہوئے بلکہ معاشی (اور سیاسی بھی) طور پر اپنے پاوں پر کھڑے ہو گئے۔
”مسلم امہ کو ڈھونڈتی نظریں“
مسلم امہ کو جہاں سیاسی تقسیم کا سامنا ہے وہیں وہ کفار ممالک پر انحصار رکھتی ہے۔ اقتصادی طور پر کمزور، فوجی اعتبار سے نا اہل اور دانشمندی سے بے بہرہ ہے۔ مسلم امہ کی یہ قابل رحم اور تشویشناک صورتحال اس لیے ہے کہ ان کا اسلام پر اعتماد کم ہے اور ان مسائل کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتے۔ سیاسی سطح پر اگر دیکھا جائے تو دنیا میں پچاس سے زائد مسلمان ممالک موجود ہیں اگرچہ ان میں کہیں بادشاہت، کہیں جمہوریت، کہیں سوشلسٹ ان ممالک کے لوگوں کو حقیقی طور پر یہ نظام۔ رہنماوں کے چناو، آئین، قوانین اور پالیسیاں بنانے کا کوئی اختیار نہیں اگرچہ یہ ممالک دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں شہریوں کی حمایت تعاون اور وفاداری حاصل ہے۔ دعویٰ کو پرکھنے کا کسی کے پاس کوئی آلہ نہیں۔ 
اس وقت امہ کو ایک نئی بدتر صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک صدی قبل صورتحال ایسی نہیں تھی۔ ایک صدی قبل برطانیہ اور فرانس نے ایشیا، افریقہ اور نئی دنیا تک اپنی نو آبادیات پھیلا رکھی تھی۔ اس وقت مسلمانوں سے خوف کھاتے تھے اور ان کے دلوں میں خدشات پائے جاتے تھے۔ وہ سلطنت عثمانیہ کو یورپ کا مرد بیمار قرار دیتے تھے اس وقت مسلمان عرب، فارسی اور دیگر اقوام ہونے کے باوجود ایک امت مانی جاتی تھی۔ ان ممالک کو ان ہی کا وطن سمجھا جاتا تھا اور اس سلسلے میں سرحدوں اور پابندیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ایک زائر رباط سے سفر شروع کر کے حجاز مقدس کے وسط میں مکہ معظمہ تک سفر کرتا تھا اسے نہ کسی ٹریول پرمٹ کی ضرورت ہوتی اور نہ ہی اسے کسی سرحد پر روکا جاتا۔ تاہم اِس وقت اسے الجزائر، لیبیا، مصر اور سعودی عرب کی سرحد پر رکنا پڑتا ہے اور اسے ان تمام ممالک کا ویزا درکار ہوتاہے۔ اس وقت مسلم امہ کے مفادات اور معاملات کی نگرانی ایک واحد خلیفے کے ہاتھ میں تھی جسے پوری امہ نے مکمل دفاداری دی ہوئی تھی حتیٰ کہ ان ممالک نے بھی اس کی دفاداری کی جو نو آبادیاتی تسلط کے تحت تھے ان میں بھارت، الجزائر اور مصر شامل ہیں اور اس کے پیش نظر ایک واحد فوج سے کفاروں کی صفوں اور منافقوں میں خوف کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔
جہاد اس امت کی عظمت رفتہ کا ایک نشان مانا جاتا ہے جس نے مسلمانوں کے علاقوں، عقیدے اور تقدس کی حفاظت کی ہے۔ اس وقت مسلم امہ اور اسلامی ریاست اپنی تہذیب، ثقافت، آرکیٹیکچر، سوچ اور علم کے پیش نظر دنیا میں ایک پھول کی مانند تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم بالآخر موجودہ صورتحال سے کس طرح دو چار ہوئے اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں، وہ ساری ہماری تاریخ میں چھپی ہوئی ہے جو مسلمانوں کی اسلام کو سمجھنے کی کمزوری ہے۔ یہ کمزوری آہستہ آہستی جڑ پکڑتی گئی اور یہ اس قدر بڑھ گئی کہ کوئی اسے حل نہیں کر سکا۔ اس لیے اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے لیے امہ اور ریاست کے خلاف سازشیں کرنا آسان ہوگیا۔ جنھوں نے مسلمانوں کے قلعے میں ایک کھلا شگاف ڈال کر اس میں داخل ہونے کے لیے صدیوں انتظار کیا اور بالآخر وہ ایسا کام کرنے میں کامیاب ہوئے جس سے مسلمانوں کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا گیا۔ (جاری ہے)

مزیدخبریں