عبدالرحمان مرزا کی یادوں کے چراغ
پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007ء کی شام لیاقت باغ میں جلسہ عام کے اختتام پر شہید کر دیا تھا 2020ء میں دختر مشرق کی 13ویں برسی عقیدت واحتشام سے منائی گئی۔ عبدالرحمان مرزا زندہ ہوتے تھے تو برسی میں اپنے بھائیوں‘ احباب اور پرستاروں کے ساتھ شریک ہوتے برسی کے حوالے سے وہ قرآن خوانی اور ذکرواذکار کی مجالس کی شمع فروزاںڈ کرتے۔ اب برسی ہوئی گوجرخان سے قافلہ عشق دعائیہ تقریب کا حصہ بنا سب کچھ معمول اور شیڈول سے ہوا مگر بھائی عبدالرحمان مرزا نہیں تھے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ پیپلز پارٹی کی شہید رانی کی برسی کے موقع پر گوجرخان کا شہزادہ (عبدالرحمان مرزا) مٹی کی چادر اروڑھ کر ابدی نیند سو جائے گا۔ گفتگو کرتے ہوئے نوجوان قانون دان محمد رمضان مرزا رکے اور بولے 2020ء میں خانوادہ محمد شریف مرزا کیلئے بھاری برس گزارا‘ ہمارے دو بھائی حبیب مرزا ( 28مئی ) اور عبدالرحمان مرزا( 30اکتوبر کو) داغ مفارقت دے گئے۔ اللہ کریم ان کی قبروں کو رحمتوں وبرکتوں کا گھر بنائے رکھے انہیں رسول کریمؐ کی حمایت اور شفاعت کا حقدار بنائے ‘ آمین ۔ مرزا محمد رمضان نے بتایا کہ مرحوم مرزا صاحب کی قیادت میں گوجرخان کی پی پی شاخ بھٹوز کی محبت وعقیدت کی سرشار ہو کر سالگرہ‘ یوم شہادت اور یوم سیاہ باقاعدگی سے منایا کرتی ۔ ہر 27 دسمبر کو وہ شہید رانی بے نظیر بھٹو کے لیے دعائیہ مجلس کا اہتمام کرتے‘ قرآن خوانی اور ذکرواذکار کے بعد شہید بھٹو کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کراتے، دعا اور شیرنی (لنگر) کی تقسیم کے بعد مرزا صاحب کی قیادت میں قافلہ جانثار لیاقت باغ راولپنڈی کی طرف عازم سفر ہوتا اس بار برسی پر دعائیہ تقریب ہوئی مگر راجہ صاحب دنیا میں نہیں تھے اب ساری محبت وعقیدت اور عشق کی ذمہ داری میرے ناتواں کندھے پر آگئی ہے ہم نے بھی روایات کا چراغ روشن رکھ کر بھٹوز سے وابستگی کا زندہ وجاوید ثبوت دیا۔ 27 دسمبر2007 ء کو بے نظیر صاحبہ لیاقت باغ میں انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد جب واپس جا رہی تھیں تو جانثاروں نے نعرہ بازی بازی شروع کی، بے نظیر بھٹو اُن کا جواب دینے کے لئے گاڑی سے باہر نکلیں تو دہشت گردوں نے اُن کو شہید کر دیا۔یہ تاریخ کا المناک ترین لمحہ تھا۔جب عالمی دنیا کی
ایک معصوم اور عظیم لیڈر کو منظر سے ہٹیا گیا ۔اُن کی شہادت پر ہر آنکھ پُر نم تھی ہر کوئی چیخ چیخ کر اپنی محبوب قائد کو پکار رہا تھا۔ پاکستان کے دشمن عناصر نے بھٹو خاندان کے اس عظیم چراغ کو راستے سے بجھاکر لوگوں کے دلوں سے بھٹو خاندان کی محبت کونکالنے کی کو شش کی مگربے نظیر شہید کے پروانوں کے دلوں میں اس واقعہ سے ایک نیا ولولہ اور جذبہ پیدا ہوا۔بھٹو کے جیالوں نے اتنے بڑے صدمے کے باوجوداُن کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم و عہد کیا۔ماضی قریب میں بے نظیر بھٹو گوجرخان آئیں ان کا تاریخ ساز استقبال ہوا، بڑے جلسہ عام میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے عبدالرحمان مرزا کی پارٹی خدمات کے اعتراف کیا اور انہیں شہید ذوالفقار جمہوری ایوارڈ عطا کیا ۔کچھ دن قبل روحانی تحریک پاکستان کے بانی کے ایصال ثواب کے لئے میلاد شریف کی پروقار تقریب کا اہتمام مرزا برادران نے کیا ۔ صدارت علامہ مشتاق احمد قادری نے کی ،مفتی حضرت علامہ حافظ محمد اکبر صاحب نے خطاب ذیشان کیا ۔ پاکیزہ محفل میں فرانس سے ملک وجاہت ، ملک عنصر، عرفان صدیقی، ملک شہباز، بیلجیئم سے ملک مسعود کھوکھر اور انگلینڈ سے سجاد خان ، شیخ حبیب الرحمان، شفیق بھٹی، راجہ عبداشکور ایڈووکیٹ، خلیق الرحمان، سلطان گولڈن،افتخار قریشی، راجہ جیلانی راجہ تنویر، شاہد عباس، سہیل عباس کیانی، نایاب خاور بھٹی، مرزا امتیاز، عامر امتیاز، صدف مبین، احمد رضا، ملک عامر، منصور مرزا، اشفاق مرزا ایڈووکیٹ ،مرزا تیمور، شیخ احتشام، طارق اللہ والے، مرزا جاوید شاہین، غلام قمر،محسن علی صغیر بھٹی، شبر عباس باقری ایڈووکیٹ، طاہرراحیل اعوان ایڈووکیٹ، وقاص مرزا، شکیل نقیبی، قادر نواز قادری، تیمور بوبی، عمران کامی، خاقان بابر کیانی، باوا کاظم شاہ، حاجی شفیق، اورنگ زیب بٹ، ٹھیکیدار اخلاق، فاروق بٹ، سرفرازچمن اینڈ برادرز، ٹھیکیدار رمضان، راجہ رحمت علی ، صبور کیانی، واجد چوہان، حسن چوہان، خواجہ عبدالقیوم، چوہدری طاہر، پہاپا اصغر، لالہ مقبول اینڈ سنز، لالہ مختار اینڈ سنز، ساجد بھٹی، نقیب سلطان، لالہ مودی، اجمل مرزا ،پروفیسر ضیائ، محمد جمیل، خواجہ شبر، قاسم ربانی، محمد امتیاز، واجد خان، راجہ ظہیر، چچا رشید ، خان فیاض، ذوالفقار خان، آصف خان، واجد خان، نعیم خان، ساجد خان، ارشد خان، خواجہ ظہیر، مشتاق علی، ندیم مرزا اور محبوب علی شامل تھے۔ شرکاء نے دعائوں سے مرحومین سے محبت کا اظہار کیا۔