ہندو بنیا دنیا کے اس خطے میں سب سے زیادہ شاطر ، سازشی اور موقع پر ست قوم ہے ۔ وہ مکاری اور عیاری میں بھی باقی تمام قوموں سے آگے ہے۔ ہمیشہ کئی سال آگے کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور ہم مسلمان صرف اس وقت سوچنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں جب کوئی مصیبت سر پر آتی ہے۔ اس لئے ہندو بنیا زندگی میں ہماری نسبت زیادہ کامیاب ہے۔پاکستان تمام تر مخالفت کے باوجود بن تو گیا لیکن ہندو بنیا اسے اب تک برداشت نہیں کر پارہا۔ حیدر آباد ، جونا گڑھ اور کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ گورداس پور اور فیروز پور مسلمان علاقے تھے۔ تقسیم ہند کے اصول کے مطابق پاکستان کا حصہ تھے۔ سازش سے ہمیں ان علاقوں سے بھی محروم کر دیا جس سے ہم پنجاب اور بہاولپور کے علاقوں کو سیراب کرنے والے نہری نظام سے محروم ہوگئے۔ سازش کرکے مشرقی پاکستان کو بھی ہم سے جدا کیا۔ چار جنگیں ہم پر مسلط کیں۔ اب کافی عرصے سے بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور سندھ میں پاکستان کی سا لمیت کے خلاف تحریکیں چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان علاقوں میں باغی گروپس کو ہتھیار، پیسہ اور پیشہ ورانہ راہنمائی فراہم کرکے امن و امان کا مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔ اپنے مقصدکی تکمیل کے لئے افغانستان کو بھی ساتھ ملا رکھا ہے۔ کشمیر کو بھی زبردستی طور پر غیر قانونی طریقے سے بھارت میں ضم کر لیا ہے۔ یہ پچھلے 72سالوں کی منصوبہ بندی تھی جسکا نتیجہ اب سامنے آیا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے فیصلے پر کاربند رہا اور بنیا اپنا کام دکھاگیا۔ کسی نے ٹھیک کہا تھا کہ اگر بنیے اور سانپ کو اکٹھے آتے ہوئے دیکھیں تو پہلے بنیئے کو ماریں کیونکہ بنیے کا ڈنگ زیادہ زہریلا اور جان لیوا ہوتا ہے۔
بھارت کو پتہ ہے کہ پاکستان اسوقت اپنے اندرونی مسائل سے دو چار ہے۔اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے خلاف متحد ہو کر عوام کو بھڑکا رہی ہیں۔ پاک فوج دہشتگردوں کے خلاف مصروف عمل ہے۔ مغربی بارڈر افغانستان نے بھارت کے کہنے پر پاکستان کے لئے غیر محفوظ بنا رکھا ہے۔بھارت کو پاکستان کے خلاف کاروائی کرنے کا یہ نادر موقع نظر آیا۔ لہٰذا پہلے اس نے پلوامہ کا واقعہ گھڑا۔ اس الزام کے ساتھ پاکستان کے اندر کارروائی کی کوشش کی جسکا مناسب جواب دیا گیا۔ پھر اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ بنا دیا۔ اب اس نے ایک متنازعہ نقشہ جاری کیا ہے جس میں گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اب یا مستقبل میں کشمیر ہمیں اپنی طاقت اور زور بازو سے ہی آزاد کرانا پڑیگا۔ آزادی پلیٹوں میں رکھی ہوئی کبھی نہیں ملتی۔ ہمیں خون دینا بھی پڑیگا اور خون بہانا بھی پڑیگا۔
کہتے ہیں دوست تو تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں۔ کچھ بھی ہو ہم دونوں کو ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی پڑیگا۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ اسکی فوج بھی بہت بڑی ہے اور معیشت بھی ہمارے مقابلے میں بڑی ہے اور مضبوط بھی ہے۔ تقریباً130کروڑ کی آبادی ہے۔ دنیا کا کوئی ملک اتنی بڑی مارکیٹ کو اگنور نہیں کرسکتا۔ سب ممالک وہاں اپنا بزنس چمکانا چاہتے ہیں۔ ساری دنیا میں سب سے اہم چیز معیشت ہوتی ہے۔ معیشت کمزور ہو تو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ بھارتی معیشت دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ اس لئے دنیا کے تمام ممالک بشمول چین اور دیگر ہمارے برادر اسلامی ممالک کے بھارت کے ساتھ مفادات منسلک ہیں۔ ان سے ہم کیسے مدد کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ ہم جتنا جلدی اس حقیقت کو پہچانیں گے اتنا ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔
بھارت روزِ اول سے پاکستان کا دشمن نمبر1ہے ۔ بھارت وہ شاطر پڑوسی ہے جسکے ساتھ ہم دوستی بھی نہیں کر سکتے ۔ ہمیں ہرحال میں بھارت کی شاطرانہ چالوں سے بچنا ہوگا۔ٍٍٍسب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان سے سی پیک کا راستہ گزر رہا ہے جسے نہ بھارت پسند کرتا ہے اور نہ امریکہ۔ سی پیک کے مکمل ہونے پر مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا کی تجارت کا پیٹرن تبدیل ہو جائیگا جس سے امریکی اور بھارتی مفادات کو سخت زک پہنچے گی۔ دوسرا اس علاقے کی تزویراتی اہمیت بہت بڑھ جائیگی جس میں پاکستان کا ایک اہم کردار ہوگا۔ ایک مضبوط اورتزویراتی طور پرا ہم پاکستان بھارت اور امریکہ کیوں کر برداشت کریں گے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان وہ علاقہ ہے جہاں پاکستان اور چین کی سر حد آپس میں ملتی ہے۔ پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تزویراتی اور معاشی تعلقات اور دونوں ممالک کی دوستی بھی بھارت اور امریکہ کے لئے نا قابل برداشت ہے۔ پہلے پاکستان امریکہ سے ہتھیار خریدتا تھا۔ اس وقت بھارت مکمل طور پر روسی کیمپ میں تھا۔ اب بھارت امریکی کیمپ میں آگیا ہے۔ دونوں ممالک کے کئی ایک معاہدے ہیں۔ بھارتی اثر و رسوخ کے تحت امریکہ پاکستان کو ہتھیار دینے سے انکاری ہے حتیٰ کہ 8ایف 16جن کی قیمت ہم ادا کر چکے تھے وہ بھی ہمیں نہیں ملے۔روس کو ہم نے افغانستان میں شکست سے دو چار کیا تھا وہ بھی پاکستان سے خفا ہے۔لہٰذا وہاں سے بھی ہم ہتھیار نہیں خرید سکتے۔ گو اب برف پگھل رہی ہے۔ شاید مستقبل میں دوستانہ تعلقات پروان چڑھ جائیں ۔ ہماری ملکی انڈسٹری اس قابل نہیں کہ ہم ہتھیاروں میں خود کفیل ہو سکیں۔ لہٰذا ہمیں چین سے ہتھیار خریدنے پڑتے ہیں جو بھارت کو چبھتے ہیں۔لہٰذا بھارت کی حتی الوسع کوشش ہے کہ گلگت بلتستان اسکے قبضے میں چلا جائے تا کہ پاکستان کے ساتھ چین کارابطہ ہی ختم ہو جائے۔ بھارت کے نئے نقشے میں یہ علاقے شامل کرنے کی بڑی دور رس سوچ ہے کیونکہ چند سالوں تک پوری دنیا بھارت کا نیا نقشہ قبول کر لے گی جبکہ ہمارے نقشے میں ہر علاقہ تا حال متنازعہ ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی یہی کچھ ہے۔لہٰذا چند سالوں بعد بھارت اپنے دعوے کو بین الاقوامی فورمز پر لے جا کر اپنے حق میں فیصلہ کراسکتا ہے یا حملہ کر کے ان علاقوں پر قبضہ کر سکتا ہے اور دنیا اس کا ساتھ دے گی۔ لہٰذا ہمیں فوری طور پر یہ علاقے پاکستان میں شامل کر کے نیا نقشہ جاری کرنا چاہیے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024