اللہ کو اپنے دین کے لئے کسی قوم کی حاجت نہیں مگر مسلمانوں کو ہمیشہ اسلام کی حاجت رہی ہے اور رہے گی۔ اس بات کی اہمیت اس آخری دور میں اور بھی زیادہ ہے جب وجال کا نظام پوری طرح کھل کر مسلمانوں خاص طور پر پاکستان کے مسلمانوں کے مقابل آچکا ہے۔ ہماری قوم کے لئے توبہ اور اصلاح احوال کی جو اہمیت آج ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی کیونکہ ہمیں پہلے ہی اللہ اور اس کے رسول پاکؐ نے اس دور اور اس دور کے فتنوں کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا اور اس دور میں ایمان پر ثابت قدم رہنے والوں کے اجرعظیم کے بارے میں۔
گزشتہ40 سالوں میں تمام علامات صغریٰ تو ظہور پذیر ہو چکی ہیں اب علامات کبریٰ کی باری ہے جو غلبہ دین کی صورت میں ظہور پذیر ہونگی جن کا ذکر قرآنی آیات میں کثرت سے آیا ہے اور بہت ساری آیات مبارکہ کا ذکر ہم اس مضمون کے ساتھ اگلے مضامین میں بھی کریں گے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں غزوہ ہند ہی دراصل غلبہ‘ دین کا آغاز ہے۔
سورہ صف آیت نمبر12ترجمہ ’’(جہاد کے بدلے) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں پہنچائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور صاف ستھرے گھروں میں جو جنت عدن میں ہیں یہی ہے سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘
سورۃ الفتح آیت نمبر16 ترجمہ’’عنقریب تمہیں اس قوم کی طرف بلایا جائے گا یا تو تم ان سے لڑو گے یا وہ اسلام قبول کر لیں گے‘‘
مفسرین کی رائے ہے کہ یہ اہل روم بھی ہوسکتے ہیں یا اس سے مراد مشرکین بت پرست ہیں۔ اس وقت کے سخت ترین بت پرست اہل مکہ تھے۔ اللہ نے ان پر مسلمانوں کو فتح دی۔ آج کے سخت ترین بت پرست ہندو ستانی ہیں۔ اس غزوہ ہند میں گو شروع میں مشکلات ہوں گی مگر بالآخر اللہ تعالیٰ ان پر بھی فتح دے گا۔
سورۃ الفتح آیت نمبر20 ترجمہ ’’اور اللہ تعالیٰ نے بہت سی غنیمتوں (فتوحات) کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم حاصل کرو گے۔ تو تمہیں یہ جلد والی (فتح مکہ) عطا فرمادیں اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے اور تا کہ مومنوں کے لئے ایک نمونہ ہو جائے اور وہ تمہیں سیدھی راہ پر چلائے۔
’’آیت نمبر21ترجمہ’’اور وہ آخر والی (فتوحات) جواب تک آپ کے قابو میں نہیں آئیں۔ اللہ نے انہیں اپنے قابو (قبضہ) میں رکھا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘
تفسیر ابن کثیرؒ: اس سے مراد وہ تمام فتوحات بھی ہیں جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہوں گی یعنی اول زماں والی اور آخر زماں والی بھی‘ جلدی کی غنیمت سے مراد خیبر اور فتح مکہ اور آخر والی سے مراد قیامت تک آنے والی تمام فتوحات‘ پس دشمنوں کی کثرت اور اپنی قلت سے ہمت نہ ہاریں۔ اللہ خود تمہاری مدد کرے گا اور مشکلات کو تم پر آسان کر دے گا۔ بالآخر فتح اسلام کی ہی ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے اور قرآن میں بہت ساری آیات بھی ہیں غلبہ دین کے بارے میں۔
سورۃ مائدہ آیت نمبر54ترجمہ ’’اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے مرتد یعنی پھر جائے گا تو عنقریب اللہ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ خود محبت فرماتا ہو گا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے۔ اللہ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف زدہ نہیں ہوں گے۔‘‘
تفسیر: اس موجودہ دور کو جس میں ہم آج رہ رہے ہیں۔ اس دور کو قرآن و حدیث میں دور فتن کہا گیا ہے اور دجالی دور کہا گیا ہے۔ دجل کا معنی ہے ایسا دھوکہ جو نظر نہ آئے اور واقع ہی پوری امت مسلمان ایسے دھوکوں اور فتنوں میں جکڑی تو گئی ہے مگر نہ تو اس کو یہ دھوکے نظر آتے ہیں اور نہ ہی فتنے اللہ تعالیٰ ہمیں پیشگی تنبیہ فرمارہا ہے کہ موجودہ اور آئندہ دور میں حالات و واقعات میں اس قدر شدت ہو گی کہ کچھ لوگ دین سے پھر جائیں گے۔ جیسا کہ آج کل لوگ دین سے پھر رہے ہیں اور دشمنوں سے ساز باز کر کے دین سے خارج ہو رہے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ خوشخبری بھی ہمیں سنا دی ہے کہ اسی دور فتن میں سے اللہ تعالیٰ ایک نئی قوم کو سامنے لے آئے گا جو جہاد میں ثابت قدم ہوں گے۔ کافروں پر سخٹ اور مومنوں پر مہربان اور شفیق ہوں گے۔ یقیناً یہ نئی قوم پاکستان ہی ہے۔ حضور نبی پاکؐ نے بہت سارے علما اور رہنمائوں کو (جو حضرت قائداعظم کی مخالفت کر رہے تھے) خواب میں حکم دیا کہ محمد علی میرا مجاہد ہے اس کی مخالفت نہ کرو۔ مولانا شبیرا حمد عثمانی‘ مولانا تھانوی‘ پیر جماعت علی شاہ‘ خان آف قلات اور دیگر نے یہ حقیقت خود بیان کی۔ چونکہ حضور نبی پاکؐ روحانی طور پر رہنمائی فرما رہے ہیں۔ اسی لئے اس کا نام غزوہ ہند ہے۔ یہ ملک غزوہ ہند لڑنے کے لئے ہی بتایا گیا تھا۔ آنے والی جنگوں کے نتیجہ میں ایسا ہو گا۔ اس غزوہ ہند میں بہت سے مجاہدین پوری روئے زمین سے آئیں گے جن میں یہ صفات ہوں گی۔ مدینہ شریف میں حضورؐ کے اہل بیت میں سے بہت سارے ایسے نوجوان ہیں جو اس وقت کا بے قراری سے انتظار کر رہے ہیں جس طرح کہ ان کے آبائو اجداد اور صحابہ کرامؓ بار بار یہ اظہار کرتے تھے۔ کاش کہ ہمیں اس غزوہ (غزوہ ہند) میں شمولیت کا موقع مل جائے جس غزوئے میں نبی پاکؐ کا فرمان ہے کہ جو بھی اس غزوہ میں شامل ہو گا وہ جتنی ہے۔
مرتد ہونے یا دین سے پھر جانے اور دہشت گردی کی وجوہات
(سورۃ انعام آیت نمبر124) ترجمہ: اے مسلمانو! میرے اور اپنے دشمنوں سے دوستی نہ کرو۔
اس کی تفسیر احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ آئی ہیں اور مفسرین اور آئمہ اکرام نے بھی اس پر بہت زیادہ لکھا ہے کہ اگر تم آپس میں اور مومنین کے ساتھ بھائی چارہ نہ کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے خیر خواہ اور دوست نہ بنو گے اور یہودو نصارہ اور مشرکین سے دوستی کرو گے تو زمین میں دہشت گردی اور فتنہ فساد پھیل جائے گا۔ لہٰذا اگر ہمیں ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں یہود و نصارہ سے دوستی چھوڑ کر آپس میں بھائی چارہ شروع کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک میں اپنے عذاب سے بار بار ڈرا رہا ہے اس کو جو اس کے فرمان کی مخالفت کرے اس کے دشمنوں سے دوستی کرے اور اس کے دوستوں سے دشمنی کرے اور بقول علامہ اقبال جو تارک قرآن ہو اور علامہ صاحب نے فرمایا کہ امت تارک قرآن ہے۔ اگر ہم غزوہ ہند میں فتح و کامرانی چاہتے ہیں تو پھر اللہ کے حکم کو ماننا پڑے گا اور غیروں کی غلامی کو ترک کرنا ہو گا اور بقول علامہ اقبال خواب غفلت سے اٹھنا ہو گا۔ علامہ اقبال نے فرمایا…
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا ٓغاز ہے
علامہ صاحب نے ہمیں قرآن پاک کا نچوڑ پیش کیا ہے اور بتا رہے ہیں کہ قرآن دعوت عمل دیتا ہے۔ حضرت علی‘ حضرت مولانا روم‘ حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ قرآن میں غوطہ زن ہونے سے اور عمل سے امامت و خلافت و حکومت اور پیشوائی نصیب ہوتی ہے۔ جب حضورؐ نے آنے والے وقتوں کے فتنوں کا ذکر کیا تو حضرت علی نے پوچھا یا رسول اللہ ان فتنوں سے نکلنے کا حل کیا ہے تو حضورؐ نے فرمایا قرآن۔حدیث شریف میں حضور نبی پاک نے ہمارے زمانے کے بارے میں یوں فرمایا ہے کہ سارا کفر متحد ہو جائے گا اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے اور اس طرح ٹوٹ پڑیں گے مسلمانوں پر جس طرح بھوکے لوگ دستر خوان پر جمع ہوتے ہیں۔ حضورؐ نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ مسلمانوں میں ’’وہن‘‘ کی بیماری آجائے گی یعنی موت سے ڈر اور دنیا سے محبت۔
وجوہات
حضورؐ نے فرمایا میں اپنی امت پر کسی چیز سے نہیں ڈرتا بجز گمراہ کرنے والے اماموں کے (مسند احمد تفسیر ابن جریر تفسیر نسائی)۔ مال میں بے برکتی ہو جائے گی۔ زراعت میں بے برکتی ہو جائے گی۔ احسان اور صلح رحمی ترک کر دی جائے گی۔ مسلمان زمین پر فساد کریں گے اور زمانہ جاہلیت والی حالت لوٹ آئے گی۔ نبی پاک نے فرمایا میری امت غبی یعنی کند ذہن ہو جائے گی۔ یہودو نصاریٰ کے مذموم پراپیگنڈا کی وجہ سے ان کی اطاعت کریں گے‘ ان کی تقلید کریں گے۔ دعائیں قبول نہ ہوں گی اور عذاب نازل ہوں گے۔ پھر جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک ان میں سے اٹھائی نہ جائے گی۔
دشمنان اسلام اپنی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں مگر افسوس کہ مسلمان پر لے درجہ کے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
حدیث: وجالی قوتیں ایک بڑی (عسکری) طاقت خراسان (افغانستان) میں جمع کر لیں گی۔
مگر خوش خبری کی بات یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا بھی ایک منصوبہ ہے جو قرآن پاک میں یوں فرما دیا گیا ہے۔
سورۃ الطارق آیت 15,16 ترجمہ ’’بے شک وہ (کفار) پر فریب تدبیروں میں لگے ہوئے ہیں اور میں اپنی تدبیر فرما رہا ہوں۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ پاکستانی قوم خواب غفلت سے نکلے اور اجتماعی تو بہ کرے۔ اس غزوہ ہند کے چھوٹے چھوٹے معرکے تو ہو رہے ہیں۔ کیا قوم کی آنکھیں نہیں ہیں اور کان بھی نہیں ہیں‘ کیا قوم دیکھ نہیں رہی کہ اس قوم کے جلیل القدر سپوت سرحد پر ہر روز شہید ہو رہے ہیں۔ (یہی غزوہ ہند ہے جو ہم لڑ رہے ہیں)۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن پاک میں ترغیب بھی دی ہے اور حکم بھی دیا ہے جیسا کہ (سورۃ بقرہ) میں جبکہ جالوت اس وقت کی سپرپاور بنی اسرائیل پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کر رہا تھا۔ تو بنی اسرائیل کے کم و بیش 40 آدمیوں نے اجتماعی توبہ کی اور اپنے نبی کے پاس گئے کہ ہم بارگاہ الٰہی میں اجتماعی توبہ کرتے ہیں۔ اور ہمارے اوپر حاکم (بادشاہ) مقرر کر دیں‘ تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ان کی توبہ قبول کی اور ان پر حضرت طالوت کو حاکم (بادشاہ) مقرر کر دیا۔ اب جب جالوت حملہ آور ہوا تو ایک چھوٹی سی فوج جن کی تعداد کے بارے میں قرآن پاک میں لفظ قلیل استعمال ہوا ہے‘ کے ہاتھوں ایک بڑا لشکر شکست کھا کر بھاگا اور اس جنگ میں حضرت دائود جو ابھی بالکل نوجوان ہی تھے کے ہاتھوں اس زمانے کا بہادر جرنیل جالوت مارا گیا۔
اب پاکستانی قوم کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ ہم بھی اجتماعی توبہ کی طرف آجائیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اپنی سنت مبارکہ کے مطابق ہماری بھی اس جنگ میں غیبی مدد فرمائے۔ اس کے بعد ہمیں انشاء اللہ خلافت ‘ امامت اور عظیم الشان سلطنت عطا ہو گی اور اللہ کے نیک بندے حکمران ہوں گے۔ حدیث: جن کے بارے میں نبی پاکؐ نے فرمایا وہ زمین کو اس طرح انصاف سے بھر دیں گے‘ جس طرح کہ وہ پہلے ظلم سے بھری ہو گی اور وہ اہل بیت میں سے ہوں گے۔ (جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38