شاعری روح کی تہوں اور گہرائیوں میں اُترنے کی ایک سعی مسلسل ہے‘ دسمبر اگرچہ پچھلے سال سے بچھڑنے کا عندیہ لے کر آتا ہے۔ لہٰذا تمام دکھ پوری آب و تاب کے ساتھ جاگ اٹھتے ہیں اور شعرا کے ہاں سخن کا جو موتی سیپ میں قید ہے کبھی گلاب اور کبھی خوشبو کا انداز لئے مہک اٹھتا ہے اور کتنے دلوں کو گداز اور سحرانگیزی کی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے اور انسان بچھڑنے اور پانے کے سنگم پر کھڑا نئے سال میں نئی اُمیدیں اور آرزوئوں کو دل کا مسکن بنا لیتا ہے۔ عرش صدیقی اس کیفیت کو سراسر انتظار میں بدل دیتے ہیں اسے کہنا دسمبر آگیا ہے۔
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی چھائوں میں ڈوب جائے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں وہ نہ جا گے گا
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
آرزو اور اُمید کو کام اور لگن سے جوڑ دیا جائے تو وہ کاوش اُبھر کر سامنے آتی ہے جس سے اجتماعی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ سیکرٹری ایجوکیشن ساجد ظفرڈال کہتے ہیں کہ تصورات کے گہرآبدار توذات میں چھپے فزائن کی طرح ہوتے ہیں اور مسلسل جدوجہد کرنا درحقیقت ان فرائن کی نشاندہی کرتا ہے اب ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والا شخص چاہے وہ شاعر ہو مصور ہو سنگ تراش ہو‘ معاشرے کی اصلاح کرنے والا ہو اسکی مختلف انداز میں نشاندہی کرتا ہے۔ یافت اور نایافت کے درمیان کاوش کو ہی ’’دریافت‘‘ کیا جاسکتا ہے کہ جس سے اندر کی دنیا کو دریافت اور باہر کی دنیا کو تسخیر کیا جا سکتا ہے ساجد ظفرڈال کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ دریافت اور تسخیر کے عمل میں مشاہدے علمیت اور جانفشانی کے جذبے کو شامل کر دیتے ہیں اور شاید یہی کامیابی کی وہ کنجی ہے جس سے وہ مقفل دروازے کھولے جا سکتے ہیں جو برس یا برس سے زنگ آلود ہیں دسمبر کا ایک نوحہ تو یہ بھی ہے کہ ان بڑے بڑے شاعروں کا ہم سے بچھڑنے کا مہینہ ہے جنہوں نے اپنے گداز الفاظ اور منفرد شاعری سے احساسات کو منفرد اور اچھوتا بنا دیا۔ منیر نیازی اور پروین شاکر نے ہجر‘ وسال‘ غم جاناں اور جذبوں کو ماہ دسمبر کی سردی‘ ویرانی اور اداسی میں ضم کر دیا۔محمد زاہد میاں نے اپنی شاعری میں ان جذبوں اور کیفیات کو ان جذبوں سے سجا دیا کہ ویرانیوں اور اداسیوں کو حوصلہ اور امید سے منسلک کر دیا اور برملا کہا کہ احساس‘ ہجر فراق یہ سب کیفیات ہیں کہ جیسے گلاب کی خوشبو ہے جو صبا سے رہائی پانا چاہتی ہے شاعری توانداز کی وہ بازگشت ہے جو سنائی ضرور دیتی ہے وہ کہتے ہیں اور دل تو وہ پرندہ ہے جو پیڑ کے چھتنار میں پھڑ پھڑاتا ہے اور یہ خوشبو‘ بازگشت اور پرندہ آس اور اُمید کا سرا تھا ۔ جب لفظوں میں ڈھلتے ہیں تو کئی مفاہیم اور حقیقتوں کی گرہیں کھولتے جاتے ہیں زاہد میاں کے چند اشعار ہیں۔
ہجر اور درد کے یوں رستوں پر
خامشی سے میں چلتا رہتا ہوں
پھر دسمبر ہے یاد تنہائی
سردیوں میں پگھلتا رہتا ہوں
جب اندھیرے بہت ہی بڑھ جائیں
میں ہوں سورج‘ نکلتا رہتا ہوں
پروین سجل نے نئے سال کی آمد اور غم و حزن کی کیفیات کو ماہ وسال کی قید سے آزاد کروا دیا۔لکھتی ہیں:
نیا اترا نہیں کوئی صحیفہ
سبق سابق اعادہ کر لیا ہے
دکھ تو گیلی لکڑی کی طرح ہوتا ہے جو دھیرے دھیرے سلگتی رہتی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ پورے سال کا کرب دسمبر میں جب سمٹ آتا ہے تو بازگشت بڑھ جاتی ہے۔ بچھڑنے کا دکھ کچھ کھونے کا المیہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ زندگی ایک ایسے سنگم پر آکر ٹھہر جاتی ہے کہ جہاں سال گذشتہ کے گھائو نشتر بن کر گھائل کرتے ہیں وہاں نئی روشنی نئی اُمید اور نیا سال ایک روشن اور حقیقت بن کر جگمگا رہا ہوتا ہے۔ کسی نے لکھا:
لمبے سفر کی اوٹ میں پل بھر نہیں رکا
میں وقت کے قریب میں آکر نہیں رکا
پھر آگیا ہے ایک نیا سال دوستو
اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں آتا
٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38