گزشتہ ہفتے شیر زندہ دلان میں ایک خوبصورت ردائے امید نے پورے ماحول کو اپنے سایہ دامانی کی فضا تلے خوشحال ماحول عطا کیا رکھا۔حضورسیدی مخدوم الامم گنج بخشؒ کا روحانی فیضان رحمت و برکات کا بڑا عکاس ہوا کرتا ہے۔پوری دنیائے اسلام سے طالبان حقیقت کا اژدہام امڈا چلا آتا ہے۔ اہل روحانیت کے اس اجتماع برکت فشان میں عوام الناس کا شعورِ وجدان بھی اپنے اندازِ عقیدت سے خیروکرم کا طالب رہتا ہے۔اسلام بیداری تحریک کا یہ عجیب رنگ پہلو عمائدین دین سے محبت کا ایک احسان، ادراک اور تجدید تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔لوگ داتا گنج بخش ہجویریؒ کو دین کے حوالے ہی سے جانتے ہیں۔ انہیں بڑا مانتے ہیں اوران کی علمی و روحانی عبقریت کو سلام تسلیم پیش کرتے ہیں ان کی زندہ¿ جاوید کتاب کشف المحجوب انقلابی دنیا میں ایک ایسا روشن سنگ میل ہے کہ جہاں سے قیادتِ ملل و امم کے نیک تصورات جنم لیتے ہیں۔ یہ انقلاب ہند کی تاریخ اور غلبہ اسلام کی داستانِ خموش کا ایسا روشن و زریں سرمایہ ہے کہ مایوس دلاں کیلئے بھی امید کی پُر حرارت کرن نظر آتی ہے کسی طالبِ فکر و روحانیت نے امام عاشقان حضرت نظام الدین اولیا ؒ سے سوال کیا کہ اگر کسی درماندہ نفس طالب حق کو کوئی مردِ ہادی میسر نہ آئے تو کس انیس خلوت سے چراغ راہ مانگے تو حضرت نظام المشائخ سلطان جی دہلوی نے فرمایا کہ اگر کسی انیس راہ کی معیت میسر نہ آئے تو پھر حضور سیدنا داتا گنج بخشؒ کی کتاب فیض معمور کشف المحجوب کا مطالعہ کرے یہ دل آویز کتنا با برکت اور امیدوں کیلئے توانائی ہے کہ جب کوئی شخص ایک زندہ کتاب کو آنکھوں کی روشنی کے وسیلے سے بصیرت کے آنگن میں پہنچا کر صفائے قلب کا سامان آراستہ کرے تو دل کی ہر دھڑکن شاید کامل بن جائے کہ اللہ کے مجنونوں کی زبان سے نکلا ہوا ہر حرف ہدایت سامان ہوتا ہے اور تحریر کیا ہوا ہر کلمہ نشانِ منزل ہوتا ہے۔
حضور سیدی داتا گنج بخش کی اس کتابِ فیض نشان ہیں فرد و ملت کی زینت کا ایسا مربوط اور مقبول طریقہ درج ہے کہ ہر حرف نسخہ کیمیا نظر آتا ہے۔حضرت داتا گنج بخش کا مزار اقدس تو صدیوں سے امانت خیر کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہے۔ عوام اور خواص کا یہ مرجع امید و فیض مسلسل مرکز تجلیات نور بنا ہوا ہے۔اقبال ایسے فرزند اسلام نے برملا اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ یہ مزار اقدس دلوں کی روشنی کا اہتمام حق ہے....
سید ہجویر مخدوم امم .... مرقداو پیر سنجرراحرم
اہل حق کی دلوں کی بستیوں کا نور ایسے ہی مردانِ حق کے فیضان کے نتیجہ¿ نظر سے برآمد ہوتا ہے ان قدر مآب وجودواں کے ہاں اخلاص کا سکّہ ہی ہمیشہ رائج الوقت ہوتا ہے۔اخلاق کا سرمایہ ان کے اقتدار دائمی کی پونجی ہوتا ہے۔اخلاص خدا کیلئے اور اخلاق مخلوقات کیلئے ان مردانِ حق کا منشور ایمان ہوتا ہے۔اپنے منشورِ ایمان کی بقاءو تکمیل کیلئے یہ ایذا رسانی کو برداشت کرتے ہیں اور فیض رسانی کو جاری رکھتے ہیں۔ ہمارے علمائ، صوفیاءاپنی کم عملی بلکہ بسا اوقات بے عملی اور اس سے بڑھ کر بد عملی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ بری عادت پورے معاشرے میں سرایت کرجاتی ہے۔ وہ لوگ جو مکروفریب کا سہارا لیکر اپنے اوپر تقدس و طہارت کی چادر ڈالتے ہیں اور مخلوق خدا پر اپنے وقار و عزت کا تسلط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بالآخر قوم و ملت پر وبال بن جاتے ہیں۔ انسانوں کو غلام بنانے کا خیال ابلیسی اور طریقہ مکروفریب چاہے اہل مدرسہ میں ہویا صاحبانِ اقتدار میں وہ اپنے منتج کے طورپر انسانیت کشی پر ختم ہوتا ہے۔وہ صالحین جنہوں نے اپنی ذات کو خدا کی بندگی میں دیدیا اور پھر بندگان خدا سے خدا کی محبت کے آئین کے مطابق محبت کرتے رہے ان کی خاک قبر بھی سرمہ کحل البصر بن گئی اور ان کا وجود سراپا اعجاز بن گیا....
نہ پوچھ ان فرقہ پوشوں کی، ارادت ہوتو دیکھ ان کو
یہ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
لیکن عجب طرفہ تماشہ ہے کہ بوریہ نشینی کا دعویٰ کرنے والے آج صاحبان تخت کی ابروئے چشم کی حرکت کے منتظر ہوتے ہیں اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کا لبادہ پہنانے کی کوشش ناکام کرتے ہیں۔
حضرت داتا صاحب کا پیغام تو مخلوق کی خدمت اور محض خدمت ہے لیکن ان کی ذات سے وابستگی کا دعویٰ رکھنے والے کو علماءو مشائخ اور صاحبان اقتدار مخلوق کی آسائش کا اہتمام کرنے کی بجائے ان کیلئے مشکلات کا راستہ ہموار کرتے ہیں اس مرتبہ عرس کے موقعہ پر پورے لاہور کوجس عجیب اذیت سے دوچار کیا گیا وہ نہایت افسوسناک ہے۔ترکی کے وزیراعظم کے دورے کے سلسلے میں سڑکوں پر جس قوت و تسلط سے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں اس سے تین تین گھنٹے ٹریفک تعطل کا شکار رہی اور بوڑھے بچے،خواتین سخت پریشانی کا شکار ہوئے۔لوگ ہاتھ اٹھا کر نجانے دعائیں مانگتے تھے یا بد دعائیں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔داتا صاحب کے زائرین جو اکثر بیرون شہر سے آتے ہیں وہ اس ٹریفک کی ہڑ لونگ میں بری طرح سے ذلیل ہوتے رہے۔داتا صاحب کی عرس کی رسومات میں اقتدار والے بہت ہی زور شور سے شریک ہوکر اپنے آپ کو محب صوفیا کہلوانے کا شوق رکھتے ہیں اور علماءو مشائخ انہیں فرشتہ اور نجانے کتنے بلند مقام پر فائز کرنے کا تقریری واویلا کرتے ہیں اور ان کی پاک دامانی کی حکایات، دلپذیر بیان کرتے ہیں لیکن مخلوق پر ہونے والے مظالم کا کبھی تذکرہ نہیں کرتے اور نہ ہی عرس کی تقریبات کی تقاریر کا موضوع ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے متعلق ہوتا ہے بلکہ سخت کوفت ہوتی ہے جب سرکاری خطیب عرس کی اختتامی تقریب میں حکمرانوں اور چھوٹے چھوٹے افسروں کے نام لیکر ان کا شجرہ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیںاوردعاﺅں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کم ہوتا ہے ان افسران کی خوشنودی زیادہ مقصود ہوتی ہے۔ بے چارہ خطیب ان کی محبت میں گرفتار دعاﺅں میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کی منقبت بیان کرتا ہے۔ نہ خدا ہی مقصود ہوتا اور نہ ہی ان افسران کی عافیت مطلوب ہوتی ہے وہ تو بے چارہ اپنی دستار کی سلامتی کے فکر میں نجانے کیا کیا کہہ رہا ہوتا ہے۔ داتا صاحبؒ کے مشن کے سب سے بڑے دشمن وہ لکھ منصبی ہیں جو اتفاق سے حکمرانوں کی آغوش میں ہر دور میں پائے جاتے ہیں اور کبھی ترنگ میں آجائیں تو لقمہ¿ چھین حکمرانوں کو مستجاب الدعوات کا تمغہ فریب عطا کرتے ہیں۔ عرس کے موقع پر درباری درویش داتا صاحب کا شجرہ پڑھتے ہیں اور سرکاری خطیب حکمرانوں اور افسروں کا سہرہ پڑھتے ہیں۔اپنی اپنی قسمت ہے اور تقسیم کار ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024