آئین کی دفعہ6کے تحت سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے ۔ اسے میڈیا اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ قرار دے چکاہے۔ اس سے پہلے آئین سے غداری کے الزام میں یہاں کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ اس ضمن میں کچھ لوگوں کو شاید بغاوت کا وہ مقدمہ یاد آئے جو بھٹو مرحوم نے خان ولی خان کے خلاف قائم کیا تھا اور جس کے نتیجے میں NAPیعنی نیپ پر پابندی لگا دی گئی تھی اور مرحوم عبدالغفار عرف سرحدی گاندھی کی تعلیمات کے تحفظ کادم بھرنے والی جماعت اپنے موجودہ نام یعنی )ANPاے این پی (کے ساتھ ملکی سیاست میں اپنا روایتی کردار ادا کرنے کیلئے نمودار ہوئی تھی۔ خان ولی خان کیخلاف چلائے جانیوالے مقدمے اور جنرل )ر(پرویزمشرف کیخلاف ہونیوالی کارروائی میں چندبنیادی فرق ہیں ۔ خان ولی خان ملک کے سابق صدر نہیں تھے اور نہ ہی ان کاکوئی تعلق فوجی قیادت سے رہا تھا۔ جہاں تک جنرل )ر(پرویزمشرف کا تعلق ہے وہ تقریباً ایک دہائی تک اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں۔ پورے نو برس تک صدر کے عہدے پر فائز رہنے کیساتھ ساتھ فوج کے چیف آف سٹاف بھی رہے۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ غداری کا مقدمہ صرف کسی فرد پر نہیں ¾ صرف پرویز مشرف نامی ایک شخص پر نہیں ¾ پاکستان کے ایک سابق سربراہ حکومت و مملکت اور پاک فوج کے ایک سابق سپہ سالار پر بھی چلایا جارہاہے۔اگرچہ مقدمے کا سکوپ جنرل )ر(مشرف کے اس اقدام تک محدود رکھا گیا ہے جو انہوں نے 3نومبر 2007ءکو کیا تھا اور جس کے تحت انہوں نے آئین کو عارضی طور پر معطل کرکے سپریم کورٹ کے ججوں کو نظر بند کردیاتھا۔ لیکن اس امکان کو قطعی طورپر مسترد نہیں کیا جاسکتاکہ جیسے جیسے مقدمے کی کارروائی آگے بڑھے گی جنرل )ر(پرویز مشرف کا پورا دورِ حکومت ” پوسٹ مارٹم“ کی زدمیں آجائیگا اور اب تک ہماری فوج کو جتنی بھی ”ملامت“ اور ” کردار کشی “ کاسامناکرنا پڑا ہے وہ ایک نئی توانائی کے ساتھ مجتمع ہو کر قومی زندگی میں سب سے زیادہ کلیدی کردارادا کرنیوالے ادارے پر حملہ آور ہوگی۔
میںفوجی حکمرانی کا حامی کبھی بھی نہیں رہا مگرہم اپنی بدقسمت تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں کہ صرف لفظ جمہوریت کے پرکشش مفہوم کی خاطر نا اہلی ¾ خود غرضی ¾ کرپشن اور ” قومی بے حسی “ کی حکمرانی کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کئے رکھنا صرف میرے ہی نہیںکسی بھی حساس محب وطن کے بس کی بات نہیں رہی ¾ وطنِ عزیز کو اب تک چار فوجی حکمران ” نصیب “ ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے ناپسندیدہ میری نظروںمیں جنرل )ر(پرویز مشرف ہیں ۔ ان کیلئے میری شدید ناپسندیدگی کی وجہ وہ ” شرمناک انداز “ تھاجس کیساتھ موصوف نے اکتوبر2001ءمیں امریکی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے اور واشنگٹن کواپنا قبلہ بنا لیا تھا۔
اگر میں ایک مورّخ ہوتا اور پاکستان کی تاریخ لکھتا تو قوم کے مجرموں کی فہرست میںایک نام جنرل )ر( پرویزمشرف کا بھی لکھتا۔ آج پاکستان مسائل مصائب اور محرومیت کی جس دلدل میں دھنسا ہوا ہے اس کی ذمہ داری بڑی حد تک جنرل )ر(پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے امریکی جارحیت کے طوفان سے مقابلہ کرنے کیلئے کوئی جرا¿ت مندانہ اور دور اندیشانہ سٹریٹجی تیار کرنے کی بجائے ”گھٹنے ٹیک دینے “ اوراپنی ”خدمات “ کا معاوضہ وصول کرنے کا راستہ اختیار کیا آج قوم اُس کھیتی کا پھل کاٹ اور کھا رہی ہے جو جنرل )ر(پرویز مشرف نے بوئی تھی۔ المیہ پھر یہ ہوا کہ جب جنرل )ر(مشرف کا برسراقتدار رہنا ناممکن ہوگیا تو امریکہ نے ان کی جانشینی کیلئے ایسے ” لیڈر “ منتخب کئے جن کے ضمیر خالی اور خزانے بھرے ہوئے تھے۔اگر جنرل پرویز مشرف پر مقدمہ چلانا ناگزیر ہی تھا تو پھرآئین کی شق 6کی بجائے کوئی ایسی شق تلاش کی جاتی جس کی زد میں مملکت خدادادِ پاکستان کے بنیادی ملی مفادات کے ساتھ غداری کا جرم آجاتا۔ایساکیوں نہیں کیا گیا ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں۔ وطنِ عزیز میں ایسے لیڈروں کی کمی کبھی نہیں رہی جنہوں نے کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ مال و دولت ”کمانے “ کی خاطر ملک و ملت کے بنیادی مفادات کے ساتھ غداری کی۔
غداری ایک ایسا لفظ ہے جو جسم میں ہی نہیں روح میں بھی سنسنی دوڑا دیتاہے۔میں سمجھتا ہوں کہ متذکرہ شق میں لفظ ” غداری “ استعمال ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ 3نومبر 2007ءکو جنرل )ر(پرویز مشرف نے جو قدم اٹھایا اور جس انداز میں اٹھایا وہ انتہائی قابلِ مذمت تھا۔ ان کے اس اقدام پر انکے خلاف کارروائی آئین کی سنگین ” خلاف ورزی “ کے الزام میں ہونی چاہئے تھی۔ آئین کے آرٹیکل 6میں ” غداری “ کی اصطلاح کا رکھا جانا اس آئین کے بنیادی خالق بھٹو مرحوم کے مخصوص سیاسی پس منظر کی نشاندہی کرتاہے۔
کون نہیں جانتاکہ بھٹو کی ” وجہ ءظہور “ ان کی اہلیہ کے سکندر مرزا مرحوم کی اہلیہ کے ساتھ مراسم تھے ۔ ان مراسم کی وجہ سے بھٹو مرحوم کو صدر سکندر مرزا کا اعتماد اور قرب حاصل کرنے کا موقع ملا۔ بھٹو غیرمعمولی صلاحیتوں اور قد کاٹھ کے آدمی تھے۔ لیکن ان کاکردار غیر معمولی قد کاٹھ کا نہیں تھا۔ اپریل 1958ءمیں مارشل لاءکے نفاذ سے چندماہ قبل بھٹو مرحوم نے صدر سکندر مرزا کو ایک خط لکھا تھا جس میں وہ خوشامد کی تمام ترقابلِ قبول حدیں تجاوز کرگئے تھے۔ انہوں نے خط کا اختتام اِن الفاظ کے ساتھ کیا تھاکہ ” اگر میں مورّخ ہوتا تو آپ کا مقام یقینی طور پر محمد علی جناحؒ سے بلند تر رکھتا۔“
میں چونکہ ایک عرصے تک بھٹو کے سحر میں گرفتار رہاہوں اس لئے یہ خط پڑھ کر مجھے بے حد صدمہ ہوا۔
اقتدار کی طلب آدمی کو اصول پرستی سے کس قدر دور کردیتی ہے اسکااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ مرحوم بھٹو ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اکتوبر 1958ءکے وسط میں جنرل ایوب خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سماسکتیں۔ ” آپ سکند ر مرزا سے جان چھڑانے کیلئے کوئی قدم اٹھائیں۔“ جنرل ایوب خان کو ایسے ہی مشوروں کی ضرورت تھی۔ 27اکتوبر1958ءکو سکندر مرزا کو فارغ کردیا گیا اور جنرل ایوب خان ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔بھٹو کی ” سیاسی بصیرت“ میں یہ ادراک کوٹ کوٹ کر بھرا تھاکہ فوج اقتدار کے کھیل میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دورِ ایوب میں اپنے آپکو بہت سارے جنرلز کے قریب رکھا۔ شیر باز مزاری اپنی خود نوشت A journey in disillusionmentمیں تو اس امکان کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ یہ بھٹو مرحوم ہی تھے۔ جنہوں نے مختلف طریقوں سے جنرل یحییٰ خان کو صدر ایوب سے اقتدار چھیننے پر آمادہ کیا۔اس تھیوری میں وزن اس لئے نظر آتا ہے کہ بھٹو اُس نفرت سے آگاہ تھے جو صدر ایوب اپنے سابق ” بلو بوائے “ سے کرنے لگے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر بازی صدرایوب کے ہاتھ میں رہی تو وہ بھٹو کیلئے دروازے آسانی کے ساتھ کھلنے نہیں دیں گے۔یہ حقیقت ہے کہ بھٹو کو اقتدار میں لانے کا سہرا فوجی قیادتوں کے سر پر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فوج سے ڈرتے تھے۔ اور یہی ڈر 1973ءکے آئین میں آرٹیکل 6کی اس انداز میں شمولیت کا باعث بنا جس انداز میں وہ موجود ہے ¾ لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آرٹیکل 6بھٹو کو جنرل ضیاءالحق کا ” شکار “ بننے سے بچا سکا؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ ” نظریہ ءضرورت “ تاریخ میں ہمیشہ ہر آئین سے زیادہ طاقتور اور موثر ثابت ہوا ہے ؟ یہ فیصلہ توعدالت ہی کریگی کہ جنرل مشرف واقعی غداری کے مرتکب ہوئے یا نہیں مگر اس مقدمے نے اس ملک کے حب الوطنوں کے ذہن میں ایسے سوال اٹھا دیئے ہیں جن کا اطمینان بخش جواب انہیں نہ ملا تو آنیوالے ایام میں ہماری قومی سیاست طوفانوں میں گِر جائیگی۔سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ ” لوگ “ اس ملک کے غدار نہیں جو اس ملک کی دولت لوٹ کر چوری چھپے باہر لے گئے ؟“ اگر ہم ایک سو ایسے غداروں کو تلاش کرکے انصاف کے کٹہرے میں لے آئیں اور انہیں مجبور کردیں کہ وہ بیرونِ ملک بنکوں سے پاکستان کا سرمایہ نکال کر واپس لے آئیں تو وہ کشکول جو ہمارے حکمران ہاتھوں میں لئے ملک ملک گھومتے رہتے ہیں وہ خود بخود ٹوٹ جائیگا۔ اس ” کارِ خیر “ کا آغاز اُن ساٹھ ملین ڈالرز سے ہونا چاہئے جن کے بارے میں یہ تصدیق ہوچکی تھی کہ اُن پر پاکستان کا حق ہے مگر جو نہایت شرمناک انداز میں غائب کئے جاچکے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38