2014ءکیلنڈر ہی بدلے گا یا قسمت بھی
2014ءکیلنڈر ہی بدلے گا یا قسمت بھی
جب فاصلے طویل ہوا کرتے تھے تو ماہ و سال کی رفتار بھی سست تھی مگر دنیا کے ایک گلوبل ولیج میں سمٹتے جانے سے باہمی رابطے زیادہ اور کچھ نہ چاہتے ہوئے بھی ناگزیر ہو گئے ہیں۔ اس حقیقت کے زیرِ اثر تمام معاملاتِ زندگی اس قدر تیز ہو گئے کہ ترقی پذیر قوموں میں انسانوں کو انفرادی مشکلات سے اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ وہ قومی مفادات کیلئے اجتماعی طاقت پیدا کر سکیں۔ اس صورتحال کا فائدہ عالمی سطح پر ترقی یافتہ قومیں اور ترقی پذیر قوموں کے اندر ترقی یافتہ طبقات اٹھا رہے ہیں۔عالمی سطح پر ترقی یافتہ قوموں نے اپنی مرضی سے معیشت کی بساط بچھا کر کنٹرول سنبھال رکھا ہے جبکہ ترقی پذیر قوموں میں یہ کنٹرول ترقی یافتہ طبقات نے خوراک و انصاف کے نظام پر تسلط کے ذریعے حاصل کر لیا ہے۔ ایک ہی طریقہ اور ایک ہی ڈوری ہے کہیں سے بھی ہلا کر دیکھ لیں۔ وطنِ عزیز میں اس سسٹم کے اثرات امسال کھل کر سامنے آ گئے ۔ یعنی عوام کی بے بسی اور حکام کی بے حسی سے پیدا شدہ صورتحال نے قومی وحدت تک کیلئے اس قدر خطرہ کھڑا کر دیا ہے کہ اگر من حیث القوم اس کا تدارک نہ کیا گیا تو معاملات زیادہ پیچیدہ اور نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ آئیں اختصار کے ساتھ 2013 میں رونما ہونیوالے چند اہم واقعات اور انکے اثرات کا جائزہ لے کر اپنے فکر و عمل کیلئے آمدہ سال کا روڈ میپ تجویز کر نے کی کوشش کریں۔
2013 الیکشن کا سال تھا لہذا اس کا آغاز ہی اسی ماحول میں ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت عوامی بے چینی اور سب پارٹیوں کے زیرِ عتاب تھی مگر وہ نیچے منہ کر کے الیکشن میں کم اور کرپشن میں زیادہ مصروف رہی۔ 2011 میں اٹھنے والے انقلاب کے نعرے جو 2012 میں تبدیلی کے نعروں میں بدل گئے تھے سب کچھ چھوڑ کر لوگ روائتی جتھہ بندیوں میں لگ گئے۔ الیکشن کے انعقاد یا التوا ءکے متعلق مختلف تھیوریوں کے درمیان مئی میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوئے جن کی Credibility پر سبھی پارٹیوں کے اعتراض آج تک موجود ہیں۔ بہرحال نواز شریف صاحب کو بھاری مینڈیٹ ملا۔ ابھی حلف بھی نہیں اٹھا پائے تھے کہ انہوں نے ہندوستان سے یکطرفہ دوستانہ تعلقات کا اعلان کر دیا جس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ جان کیری انڈیا آ کر بیٹھ گئے اور اس ریجن میں عالمی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا ڈول ڈالا گیا۔ اس میں پاکستان کی قربانیوں اور نقصانات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے انڈیا کو پاکستان کے اندر سے گزر کر افغانستان میں پاﺅں جمانے اورعلاقائی طاقت کے طور پر تسلیم کروانا مقصود تھا۔وزیرِ اعظم نے ستمبر میں UNO کی جنرل اسمبلی میں تقریر اور پھر اس کے بعد امریکی صدر سے اکتوبر میں ملاقات کے دوران اپنے قومی تحفظات کا اعادہ کر دیا۔ اس دوران ہم پر دباﺅ بڑھانے کیلئے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو گرم اور افغانستان کی سمت سے دہشت گردی کو تیز رکھا گیا۔ سال کے آخری مہینوں میں صدر پاکستان‘آرمی چیف اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے نواز شریف صاحب کو موقع مل گیا کہ وہ اپنی ٹیم کو از سر نو اپنی مرضی سے منظم کر لیں جس سے خود ان پر آئندہ کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ کراچی امن کوششیں اور پولیس اپریشن شروع کیا گیا جو جزوی طور پر کامیاب رہا۔
پانچ چھ ماہ میں ہی حکومتی گراف عوام میں خاصا گر گیا کیونکہ ایک طرف تو عوام کی امیدیں ان سے کیے گئے وعدوں کے سبب بہت اونچی تھیں۔دوسری طرف حکومت کی ہر معاملے پر بے نتیجہ ہنگامہ خیزی اور فیصلوں میں تساہل سامنے آئے۔ کمزور حکومتی رٹ نے سوسائٹی میں ایسے مائنڈ سیٹ کوتقویت دی جس میں شہادت‘دوست‘ دشمن‘ فرقے‘ لبرل ازم‘ جمہوریت‘ عسکری اہمیت‘ آزاد معیشت وغیرہ کے نظریات سے نئی نئی شرحیں نکالی اور گروہ در گروہ تسلیم بھی کر لی گئیں۔
سال کے آخری مہینے میں ان کا عکس مختلف ریلیوں میں بھی دیکھا گیا۔بدقسمتی سے آج تک ریلیوں کے واضح اور قابل عمل مقاصد نہ ہونے کی وجہ سے یہ کبھی بھی عوام میں سیاسی حاضری لگوانے سے زیادہ کچھ فائدہ نہیں دے سکیں۔ بہرحال یہ سلسلہ کچھ دیر اور چلتا رہے گا۔ مجموعی طور پر ہم نے بہت سارے ایشوُ سلگا رکھے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں بجھتے ہیں یا بھڑکتے ‘ ہمیں دونوں صورتوں کیلئے تیار ہونا ہے۔
2014 ءکے آغاز میں بلدیاتی الیکشن ہو رہے ہیں۔سندھ اور پنجاب میں اس طرح کا دنگل ہو گا کہ عوام میں Polarization اور بے چینی بڑھے گی۔ ریلیاں مہنگائی کے نام پرنکالی جا رہی ہیں جبکہ حکومت تیل‘ گیس‘ بجلی کی قیمت مزید بڑھانے والی ہے۔ اگر اس طرح ہوا تو یہ پرُ امن رہنے کی بجائے سول نافرمانی یا تشدد کی راہ اختیار کر سکتی ہیں۔ اسکے بعد ریلیوں میں شامل گروپس کا رجحان اپنے اپنے ایجنڈے کی طرف ہو جائیگا جس کا مطلب زیادہ انتشار ہوگا۔ لہذا حکومت کو یہ معاملہ اپنی پہلی ترجیح کے طور پرلینا چاہیے۔
مشرف ٹرائل یا اصغر خان کیس جیسے معاملات کو عمومی طریقے اوررفتار سے چلنے دیا جائے اور انکی بجائے وہ معاملات جس سے عوام کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں انہیں حل کرنے پر ساری توانائی صرف کی جائے۔ ہمارے لوگوں کو اگر سچ بول کر اعتماد میں لے لیا جائے تو آدھا مسئلہ وہیں حل ہو جاتا ہے بہت بُردبار لوگ ہیں مگر شائد اس سے زیادہ بوجھ اب نہ اٹھا سکیں۔ سب سرخ لکیرپر کھڑے ہیں مگر اہلِ اقتدار مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔
فوج میں جب حملے کیلئے جاتے ہیں تو مختلف گروپس ایک جگہ پر اکھٹے ہو کر اپنے آپ کو فائنل ترتیب دیتے ہیں۔ اس مقام کو FUP یعنی” فارمنگ اپ پلیس“ کہتے ہیں اور جس وقت ِ مقررہ پرسب یک دم اٹھ کر دشمن پر لپکتے ہیں اسےH.Hr ”ایچ آور“ کہتے ہیں۔ اسکے بعد ہر طرف سے گولیاں یا بارود برستا رہتا ہے‘ ساتھی گرتے رہتے ہیں مگرسپاہی فتح یا موت تک چلتا رہتا ہے۔ مجھے دسمبر 2013 کو پوری قوم FUP میں محسوس ہورہی ہے اور جنوری 2014 ءH.Hr لگ رہا ہے۔ اسکے بعد شفاف پالیسیوں کے ساتھ عزم اور یگانگت کو قائم رکھا تو ہی”نَصرمِن َ اللہ وَ فَتح قَرِیبُ“ ہمارے لئے ہوگا۔
اہلِ فکر و دانش‘ میڈیا کے پر جوش ساتھیوں ‘محترم سیاستدانوں اور نوجوانانِ پاکستان نے اگر اس موقع پر ہر ترجیح سے بالا تر ہو کر‘ اپنے اپنے مورچے صرف قوم کیلئے سنبھال لئے تو آمدہ سال صرف کیلنڈر کی تبدیلی نہیں قسمت کی تبدیلی بھی ثابت ہوگا ۔انشا اللہ ۔اہلِ وطن کو پیشگی سالِ نو مبارک ہو۔