انیسویں آئینی ترمیم حتمی منظوری کے آخری مراحل میں ہے۔ قومی اسمبلی نے اس پر دوتہائی سے کہیں زیادہ اکثریت کے ساتھ صاد کر دیا ہے۔ صرف ایک ووٹ مخالفت میں آیا۔ یوں یہ آئینی ترمیم قومی اتفاق رائے کا مظہر بن گئی… اب سینٹ سے ہوتی ہوئی ایوان صدر کے دستخطوں کے بعد آئین مملکت کا حصہ بن جائے گی۔ اس کے ساتھ قومی اسمبلی نے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے چنائو اور برطرفی کا جمہوری طریق کار بھی طے کر دیا ہے۔ ان دونوں اہم مناصب پر تقرریوں کے حوالے سے بھی عوام کا منتخب ادارہ اور اس کے ارکان کی اکثریت کی رائے فیصلہ کن ہو گی۔ کسی شخص کی صوابدید خواہ وہ صدر پاکستان ہو اس باب میں کوئی اہمیت نہ رکھے گی۔ یوں آئین بہت حد تک ان آلائشوں سے پاک ہو کر جمہوری پارلیمانی نظام حکومت و سلطنت کا آئینہ دار بن گیا ہے۔ جس کا خواب کبھی بانیان پاکستان نے دیکھا تھا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی 135ویں سالگرہ پر یہ قوم کیلئے سب سے بڑا تحفہ ہے، لیکن آئین بنا لینا یا اصل شکل میں بحال کر دینا اور اُسے قانونی طور پر نافذ کر دینا کافی نہیں یہ دستاویز قوم و ملک کیلئے مفید بلکہ تریاق اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے جب اِس کے الفاظ اور روح پر پوری طرح عمل کیا جائے گا اور کوئی ریاستی ادارہ، حکومتی فرد، یا حزبِ اختلاف کا رہنما اِس کی خلاف ورزی یا اِس کے طے شدہ حدود سے باہر قدم رکھنے کے بارے میں سوچے نہ اس کی جرأت کرے گا۔ ہماری قوم اور اِس کے منتخب نمائندے ایک آئینی دستاویز تیار کرنے اور اُس کے بظاہر نفاذ میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ 1956ء اور 1973ء میں یہ کارنامہ سرانجا دیا گیا لیکن پاکستان کی بدقسمت سیاسی تاریخ میں اصل المیہ
آئین کو غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں پامالی سے بچانے میں ناکامی کا رہا ہے۔ آج جبکہ نافذ شدہ آئین کی حد تک منتخب پارلیمنٹ کو طاقتور بنا دیا گیا ہے اور اِس کے چنے ہوئے وزیراعظم کو تمام حکومتی اختیارات کا مالک قرار دیا جا رہا ہے اِس کے باوجود ایوانِ صدر سے جاری ہونے والے سیاسی فیصلوں کو بالادستی حاصل ہے جب تک یہ صورتحال باقی رہے گی، آئینِ مملکت کی روح تلملاتی رہے گی اور یہ سوال بار بار اُٹھایا جائے گا کیا واقعی ہمارا نظامِ حکومت صحیح معنوں میں جمہوری اور پارلیمانی ہے؟ پارلیمانی نظام میں صدر منتخب پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا۔ اس کے فیصلوں کا بوجھ وزیراعظم کو اپنے سر پر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اسی سے خرابیاں اور تضادات جنم لیتے ہیں۔ (جاری ہے)
آئین کو غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں پامالی سے بچانے میں ناکامی کا رہا ہے۔ آج جبکہ نافذ شدہ آئین کی حد تک منتخب پارلیمنٹ کو طاقتور بنا دیا گیا ہے اور اِس کے چنے ہوئے وزیراعظم کو تمام حکومتی اختیارات کا مالک قرار دیا جا رہا ہے اِس کے باوجود ایوانِ صدر سے جاری ہونے والے سیاسی فیصلوں کو بالادستی حاصل ہے جب تک یہ صورتحال باقی رہے گی، آئینِ مملکت کی روح تلملاتی رہے گی اور یہ سوال بار بار اُٹھایا جائے گا کیا واقعی ہمارا نظامِ حکومت صحیح معنوں میں جمہوری اور پارلیمانی ہے؟ پارلیمانی نظام میں صدر منتخب پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا۔ اس کے فیصلوں کا بوجھ وزیراعظم کو اپنے سر پر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اسی سے خرابیاں اور تضادات جنم لیتے ہیں۔ (جاری ہے)