’’کراچی کو ہے کسی مسیحا کا انتظار‘‘

دنیا کا ساتواں اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر’’ گندگی اور سیوریج زدہ نظام ‘‘سے’’ اٹا‘‘ پڑا ہے،رہی سہی کسر بارشوں نے نکال دی،سیاسی جماعتوں پر مشتمل 6رکنی کمیٹی بننا خوش آئند تھا ،اہل کراچی نے بھی اس پر ’’سکھ کا سانس‘‘ لیا ،6رکنی کمیٹی نے’’ 6 مسائل‘‘ کو سامنے رکھا ،درحقیقت یہ چھ مسائل ہی ’’ام المسائل ‘‘ہیں۔کراچی کا کچرا ‘ ماڈل ٹرانسپورٹ سسٹم‘ سرکلر ریلوے‘ سڑکوں کی تعمیر‘ سیوریج اور پینے کا پانی ۔
یہ مسائل اگر حل ہو جاتے ہیں تو کراچی کو’’ستے خیراں‘‘ ہیں۔وفاق اور صوبے کی کمیٹی اہل کراچی کی امیدوں پر کتنا پورا اترتی ہے ۔یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ،سر دست ہم پہلے سے موجو د اداروں کی ’’کارکردگی‘‘ جانچتے ہیں ۔این ڈی ایم اے کو ہنگامی صورتحال کیلئے ہی بنایا گیا تھا ،اسکے سوا اس کا کوئی’’ مقصد‘‘ نہ تھا ،’’ عروس البلاد‘‘ میں بارشوں نے ’’اودھم مچا ‘‘رکھا ہے،کراچی سمندر کا منظرپیش کر رہا ہے لیکن یہ’’ ادارہ حرکت ‘‘میں نہیں آیا ،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بارشوں کے ساتھ ہی یہ ادارہ ازخود’’ روبہ عمل‘‘ میں آجاتا،وزیر اعظم کے احکامات کا انتظارہی نہ کیا جاتا ، گندگی اور مچھروں کی بہتات کے باعث شہری متعدد ’’موذی امراض‘‘کا شکار ہیں، ہر محلے اورگلی کی نکڑ اور چوراہے پر کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں، سندھ کی حکمران جماعت شہر کراچی پر حکمرانی کا خواب تو دیکھتی ہے مگر جب کراچی کے مسائل پر بات کی جائے،تو انکے حل میں کردار ادا کرنے کی بجائے وہ تمام تر ذمہ داری دوسروں پرڈال دیتی ہے۔
اندرون سندھ’’ کھنڈرات ‘‘میں تبدیل ہو چکا ہے، حالیہ بارشوں کے باعث تو حالات مزید خراب ہیں، یہ بھی’’ تلخ حقیقت‘‘ ہے کہ گزشتہ بارہ برسوں میں سندھ حکومت نے بھی کراچی کو ’’نظر انداز‘‘ کیے رکھا۔بڑی سے بڑی آفت پر بھی خود بخود حکومتی ’’مشینری‘‘ حرکت میں نہیں آئی ،اسی ایک چیز نے وہاں کے ’’ عوام کو زچ‘‘ کیا ہوا ہے ۔کراچی کی کچی آبادیوں، مضافاتی اور دیہی علاقوں کی حالت دیکھ کر آپکو ایسا لگے گا جیسے آپ کسی ’’آفت زدہ‘‘ علاقے میںہوں ۔کراچی کے سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، سرکاری اسکولوں اور سرکاری اسپتالوں میں بھی صفائی ستھرائی کا کوئی نظام نہیں۔اس وقت اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ذمہ دار ادارے خود بخود حرکت میں آتے ،بدقسمتی ایسا نہیں ہوا ،اس وقت بڑی ضرورت سسٹم کو ریگولر کرنے کی ہے ۔اگر سسٹم ریگولر ہو گیا تو اسے مسائل سے ہمیشہ کیلئے ’’چھٹکارہ‘‘ مل جائیگا۔ کراچی کے مسائل کیلئے تشکیل دی جانیوالی کمیٹی کو بھی اب فعال ہو کر اپنا کام کرنا چاہیے ،جب تک اداروں کی ’’استعدادکار‘‘ میں اضافہ نہیں کیا جاتا تب تک کراچی کے شہری اس عذاب سے نجات نہیں پا سکیں گے ۔
’’مہنگائی سے غریب کی زندگی اجیرن‘‘
آپ ہر روز اخبارات کا مطالعہ کر لیں ،یا پھر گزشتہ ایک برس کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں ،تو آپ کو مہنگائی پر قابو پانے کے ’’محض دعوے‘‘ ہی نظر آئیں گے ،عملی اقدامات صفر،جب تک دعوی صفر اور عملی اقدامات سوفیصد نہیں ہو جاتے تک عوام اس گرداب میں پھنسے رہیں گے ۔آجکل لوگ سب سے زیادہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں اور اب نوبت بااینجا رسید کہ نان جویں کا بندوبست ہی کرنا مشکل سے مشکل بنتا جا رہا ہے۔ یہ مہنگائی جو حقیقی سے زیادہ مصنوعی ہے۔منافع خور طبقے کی کارستانی ہے۔اس مہنگائی کے خارجی عوامل جو ہیں وہ تو سو ہیں مثلا ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت ، درآمدات و برآمدات کا خسارہ ، آمدنی اور اخراجات کا بڑھتا ہوا فرق ، لیکن ایک بڑی وجہ جس سے یہ مصنوعی مہنگائی متوسط اور نچلے متوسط طبقے کو بہت زیادہ محسوس ہورہی ہے ۔حکومتی رٹ نہ ہونا ، قیمتوں پر کنٹرول کا نہ ہونا ، خاص طور پر روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہیں ۔
پٹرول کی قیمت2روپے بڑھتی ہے جبکہ مہنگائی میں 10روپے اضافہ ہو جاتا ہے ۔یہ سب چیک اینڈبیلنس نہ ہونے کی بنا پر ہو رہا ہے ۔آج بڑھتی مہنگائی سے معاشرے کا ہر طبقہ پریشان ہے اور وہ سمجھ رہا ہے کہ کساد بازاری، مہنگائی اور بے روزگاری کی جانب سے عوام کا دھیان بھٹکانے کیلئے حکومت نئے نئے منصوبے لا رہی ہے لیکن ان پر عملدرآمد اس طرح سے نہیں ہو رہا۔ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام خوش تھے کہ پہلی مرتبہ اس ملک کو ایسا وزیرِ اعظم ملا ہے جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ دھبہ نہیں ہے، اس لئے یہ اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کر دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونیوالے اس ملک کے لٹیروں کو شکنجے میں لا کر نہ صرف اس ملک کے وسائل کو لوٹنے والے اور عوام کا خون نچوڑنے والے سیاست دانوں کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دے گا اور عوام کیلئے خوشحالی کے دروازے کھول دے گا اور عوام گزشتہ ادوار حکومت اور اس حکومت کے طرزِ حکمرانی میں واضح فرق محسوس کرینگے لیکن اب تک کے حکومتی اقدامات سے تو ایسا لگتا ہے کہ عوام کیلئے تاریکی کی رات اور گہری اور لمبی ہوتی جا رہی ہے جو کہ عوام کو مایوسی کی گہری اور تاریک کھائی میں لے جا رہی ہے۔فروری میں مہنگائی گذشتہ 10 سال کی بلند ترین شرح پر پہنچنے کے بعد مارچ، اپریل اور مئی 2020 میں مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح میں کمی کے بعد سے جون اور جولائی میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہواہے۔ گذشتہ ایک سال یعنی جولائی 2019 کا موازنہ جولائی 2020 میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سے کیا جائے تو ان میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔خود حکومت نے بجٹ تقاریر میں عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کیے تھے لیکن بجٹ کے بعد سے مہنگائی کے اشاریے اوپر کی جانب ہی گامزن ہیں۔وفاقی ادارہ برائے شماریات کی جانب سے جاری کیے گئے جانیوالے اعداد و شمار کے مطابق جون 2020 کے مقابلے میں جولائی کے دوران مہنگائی میں دو اعشاریہ 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس وقت مہنگائی پر قابوپانے کی ضرورت ہے لیکن حکومت اس پر قابو پانے کی بجائے مافیا کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو باعث تشویش ہے ۔