آزادی نعمت‘ احساس جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالوں کو ہے: محمد صدیق
ملتان (سماجی رپورٹر) آزادی ایک بہت بڑی نعمت اور عطیہ خداوندی ہے اس کا اندازہ صحیح معنوں میں ان لوگوں کو ہے جنہوں نے اس کی خاطر ہزاروں جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ ان خیالات کا اظہار بھارت کے ضلع ہوشیار پور سے 10 سال کی عمر میں ہجرت کر کے پاکستان آنے والے محمد صدیق نے ’’ہم نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ میں کیا انہوں نے کہا کہ ہم جس گاؤں میں مقیم تھے وہاں آیا وہ آبادی ہی مسلمانوں کی تھی عصر کا وقت تھا تو اچانک شور کی آواز آئی کہ بھاگو بھاگو باہر نکل کر دیکھا تو کوئی 50 سے زائد ہندو تیل کی بوتلیں ہاتھوں میں لئے گھروں کو آگ لگا رہے تھے اور ساتھ ہی ہاتھوں میں گنڈاسے اور بھالے تھے جو بھی مزاحمت کرتا اس کا سرتن سے جدا کر دیتے بس جانیں بچا کر نہتے ہاتھوں اپنا مال و متاع جمع پونجی سب کچھ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے گاؤں کے باہر ایک مقام پر آ کر سانس لیا۔ 600 افراد پر مشتمل قافلہ دل میں آزادی کا جذبہ لئے پیدل روانہ ہوا کئی روز تک بھوکے پیاسے پیدل سفر کیا لوگ پاک دھرتی پر قدم رکھنے کے لئے بے چین تھے۔ اس دوران ہندوؤں نے قافلہ پر حملہ کردیا اور گاجر مولی کی طرح کاٹ کاٹ کر پھینکتے چلے گئے قافلہ میں شامل بزرگوں خواتین جوانوں نے دریا میں چھلانگیں لگا دیں اور ماؤں نے دل پر پتھر رکھ کر اپنے معصوم جگر گوشوں کو دریا کی تیز لہروں کے سپرد کر دیا اس دوران مجھ سمیت میری ایک خالہ تایا اور دو پھوپھی زاد بھائیوں نے دریا کے ایک جزیرہ میں چھپ کر جان بچائی رات ہو گئی بھوک سے برا حال ہوا تو جڑی بوٹیاں کھا کر پانی پی لیا اس دوران رات کے 2 بجے ایک زہریلے سانپ نے میری خالہ کو ڈس لیا جس سے وہ اﷲ کو پیاری ہو گئی تو اسے جزیرہ میں ہی دفن کرنا پڑا صبح ہوئی تو دریائے جمنا میں ہزاروں نعشیں دیکھیں بالآخر 4 دن کے پیدل سفر کے بعد ہم گاڑی پر سوار ہوئے گاڑی میں ہر مسافر کو 2‘2 گھونٹ پانی میسر آیا اور ہم نے جونہی پاکستانی سرزمین پر قدم رکھا تو سجدہ شکر ادا کیا۔ مگر افسوس ہے کہ اتنی بڑی قربانیوں کے بعد ہماری نوجوان نسل نے ان قربانیوں کی قدر نہیں کی۔